شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے بعد پاکستان نے افغانستان سے بھی دوطرفہ سرحد پر نگرانی بڑھانے کے لیے کہا ہے تاکہ فوجی کارروائی سے بچ کر دہشت گرد فرار نا ہو سکیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ’ضرب عضب‘ نامی آپریشن جاری ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری ایک بیان کے مطابق میرانشاہ کے مضافاتی علاقے قطب خیل میں جمعہ کی صبح کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے علاوہ توپ خانے اور ماہر نشانہ بازوں کی کارروائی میں غیر ملکی جنگجوؤں سمیت 12 دہشت گرد مارے گئے۔
تازہ کارروائی میں فوج کے مطابق بڑی تعداد میں اسلحہ اور بارود کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ آپریشن منصوبے کے مطابق جاری ہے اور گھیرے میں لیے گئے علاقے سے جمعرات کی شب دہشت گردوں نے نکلنے کے چھ بار بھرپور کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔
فوج کے بیان میں کہا گیا کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بھیس میں علاقہ چھوڑنے والے 24 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اس قبائلی علاقے میں اب تک دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق گزشتہ اتوار سے شروع ہونے والے آپریشن کے بعد اب تک دو سو سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جن میں ’ازبک‘ جنگجو بھی شامل ہیں۔
شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں جنگجوؤں کے متعدد ٹھکانوں خاص طور پر اُن کے مواصلاتی نظام کے مراکز کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔
آپریشن میں ہلاکتوں کی تعداد کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں کیوں کہ جس علاقے میں یہ کارروائی جاری ہے وہاں تک میڈیا کو رسائی حاصل نہیں۔
اُدھر وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ پشاور میں پاکستانی فوج کے کور ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا۔ جہاں اُنھیں کور کمانڈر کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
پشاور روانگی سے قبل وزیراعظم کا اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی کارروائی کے علاوہ نئی قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔
’’جہاں یہ دہشت گردی کے خلاف جد و جہد ہو رہی ہے وہاں پر غیر قانونی اسلحہ بھی کسی کو رکھنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔۔۔ تاکہ یہ دہشت بند ہو، لاقانونیت بند ہو۔۔۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سب جماعتوں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے۔‘‘
شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے بعد پاکستان نے افغانستان سے بھی دوطرفہ سرحد پر نگرانی بڑھانے کے لیے کہا ہے تاکہ فوجی کارروائی سے بچ کر دہشت گرد فرار نا ہو سکیں۔
اس سلسلے میں وزیراعظم نواز شریف نے افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ٹیلی فون پر بات کی جب کہ رواں ہفتہ ہی قومی اسمبلی کے رکن محمود خان اچکزئی نے بطور وزیراعظم کے خصوصی مندوب کے افغانستان کا دورہ کیا۔
دفتر خارجہ کے مطابق اس دورے کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان سے تعاون کا حصول تھا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے جاری ایک بیان کے مطابق میرانشاہ کے مضافاتی علاقے قطب خیل میں جمعہ کی صبح کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے علاوہ توپ خانے اور ماہر نشانہ بازوں کی کارروائی میں غیر ملکی جنگجوؤں سمیت 12 دہشت گرد مارے گئے۔
تازہ کارروائی میں فوج کے مطابق بڑی تعداد میں اسلحہ اور بارود کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ آپریشن منصوبے کے مطابق جاری ہے اور گھیرے میں لیے گئے علاقے سے جمعرات کی شب دہشت گردوں نے نکلنے کے چھ بار بھرپور کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔
فوج کے بیان میں کہا گیا کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے بھیس میں علاقہ چھوڑنے والے 24 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اس قبائلی علاقے میں اب تک دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
عسکری ذرائع کے مطابق گزشتہ اتوار سے شروع ہونے والے آپریشن کے بعد اب تک دو سو سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جن میں ’ازبک‘ جنگجو بھی شامل ہیں۔
شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں جنگجوؤں کے متعدد ٹھکانوں خاص طور پر اُن کے مواصلاتی نظام کے مراکز کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔
آپریشن میں ہلاکتوں کی تعداد کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں کیوں کہ جس علاقے میں یہ کارروائی جاری ہے وہاں تک میڈیا کو رسائی حاصل نہیں۔
اُدھر وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہمراہ پشاور میں پاکستانی فوج کے کور ہیڈ کوارٹر کا دورہ بھی کیا۔ جہاں اُنھیں کور کمانڈر کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن سے متعلق بریفنگ دی گئی۔
پشاور روانگی سے قبل وزیراعظم کا اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی کارروائی کے علاوہ نئی قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔
’’جہاں یہ دہشت گردی کے خلاف جد و جہد ہو رہی ہے وہاں پر غیر قانونی اسلحہ بھی کسی کو رکھنے کی اجازت نہیں مل سکتی۔۔۔ تاکہ یہ دہشت بند ہو، لاقانونیت بند ہو۔۔۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سب جماعتوں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے۔‘‘
شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے بعد پاکستان نے افغانستان سے بھی دوطرفہ سرحد پر نگرانی بڑھانے کے لیے کہا ہے تاکہ فوجی کارروائی سے بچ کر دہشت گرد فرار نا ہو سکیں۔
اس سلسلے میں وزیراعظم نواز شریف نے افغان صدر حامد کرزئی سے بھی ٹیلی فون پر بات کی جب کہ رواں ہفتہ ہی قومی اسمبلی کے رکن محمود خان اچکزئی نے بطور وزیراعظم کے خصوصی مندوب کے افغانستان کا دورہ کیا۔
دفتر خارجہ کے مطابق اس دورے کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان سے تعاون کا حصول تھا۔