زینب قتل کیس: تالیاں بجانے پر شہباز شریف پر کڑی تنقید

قائد حزب اختلاف خورشید شاہ (فائل فوٹو)

پریس کانفرنس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک تصویر بھی گردش کر رہی ہے جس میں وزیرِ اعلیٰ اور دیگر حکام کو اس پریس کانفرنس میں ہنستے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

پنجاب کے ضلع قصور میں کم سن بچی زینب سے زیادتی اور قتل کے ملزم کو گرفتار کیے جانے پر جہاں سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے خوشی و اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں اس مشتبہ شخص کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے تفتیش کاروں کے لیے تالیاں بجوانے پر تنقید اور مذمت بھی سامنے آئی ہے۔

منگل کی شام شہباز شریف نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ملزم عمران کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے پولیس اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل لوگوں کو سراہتے ہوئے وہاں موجود لوگوں کو ان افراد کے لیے تالیاں بجانے کا کہا تھا۔

اس پریس کانفرنس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر ایک تصویر بھی گردش کر رہی ہے جس میں وزیرِ اعلیٰ اور دیگر حکام کو اس پریس کانفرنس میں ہنستے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اس تصویر پر لوگ یہ کہہ کر تنقید کر رہے ہیں کہ زینب کے والد کے ساتھ بیٹھ کر اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کا اس طرح کا انداز نامناسب ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے بھی وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان سے معذرت کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم کا پکڑا جانا بہت اچھی بات ہے لیکن اس پر جس طرح سے تالیاں بجوائی گئیں اور اتنے بڑے عہدے پر بیٹھا شخص یہ کرواتا ہے تو یہ ان کے بقول شرم کا مقام ہے۔

"جن کی بچیاں ہیں وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اگر ان کا قاتل مل جائے اس قسم کا تو ہم لوگوں کو کھڑے ہو کر تالیاں بجانے کی بات کریں اور مبارک باد لینے کی بات کریں؟ اس کی مذمت کی جانی چاہیے اور اس سے دل آزاری ہوئی ہے۔ انھیں (شہباز شریف کو) معافی مانگنی چاہیے قوم سے آج۔ اور یہ کہیں کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔"

اس موقع پر انھوں نے پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے اعداد و شمار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ملزم کو تو پکڑ لیا گیا ہے لیکن باقیوں کا کیا ہوا؟

خورشید شاہ نے کہا کہ وہ الزام تراشی نہیں کرنا چاہتے اور ایسے واقعات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن ملزم پکڑنے پر اس طرح سے خوشی کا اظہار اور مبارکبادیں لینا کہیں نہیں ہوتا۔

تاحال قائدِ حزبِ اختلاف کے اس بیان پر پنجاب حکومت یا وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔