عمران خان نے صوبہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں اس نوعیت کی قرار داد کی متفقہ منظوری کی اُمید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو رسد سے لدے ٹرکوں کو صوبے کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اسلام آباد —
پاکستان تحریک انصاف نے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی بندش کی یقین دہانی تک نیٹو رسد کی افغانستان ترسیل بند کرنے کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر قرار دادیں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے ہفتہ کو اپنی جماعت کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے اختتام پر کہا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی اور خیبر پختون خواہ، سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں میں یہ قرار دادیں آئندہ ہفتے کے آغاز پر پیش کرے گی۔
اُنھوں نے صوبہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں اس نوعیت کی قرار داد کی متفقہ منظوری کی اُمید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو رسد سے لدے ٹرکوں کو صوبے کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
’’میں یہ واضح کر دوں کہ ہم یہ فیصلہ بالکل قانونی حد میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کہ اگر آئندہ ڈرون حملے ہوں، اُن (طیاروں) کو یا گرا دیا جائے یا نیٹو سپلائی بند کی جائے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہم نیٹو سپلائی بند کریں گے۔‘‘
تحریک انصاف صوبہ خیبر پختوں خواہ میں اقتدار میں ہے جب کہ صوبہ بلوچستان کی اسمبلی میں اس جماعت کی کوئی نمائندگی نہیں۔
عمران خان نے حالیہ ڈرون حملے کو حکومتِ پاکستان اور طالبان کے درمیان مجوزہ مذاکرات کے خلاف سازش قرار دیا۔
پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جمعہ کو ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت ایسے وقت ہوئی جب عسکریت پسندوں کی قیادت اطلاعات کے مطابق حکومتِ پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کی پیش کش پر غور کر رہی تھی، جب کہ حکومت کے نمائندہ وفد نے ہفتہ کو طالبان سے پہلا باضابطہ رابطہ بھی کرنا تھا۔
سیاسی حلقوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ان عوامل کے تناظر میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت مذاکراتی عمل کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مستقبل قریب میں مذاکرات کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں۔
’’عسکریت پسندوں کے لیے شاید یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اس واقعے کے فوراً بعد مذاکرات کریں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں کیا ہوتا ہے ... میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کے امکانات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
جماعتِ اسلامی کے رہنما سراج الحق نے کہا کہ پاکستان میں بحیثیت مجموعی اس خواہش کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں اور اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔
’’اب تک جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ حوصلہ شکن بھی نہیں، اُن (طالبان) کی طرف سے بھی کوئی ایسا بیان نہیں آیا ہے کہ مذاکرات ختم ہو گئے بلکہ محتاط انداز میں وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
حکمران مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے صحافیوں سے گفتگو میں فریقین پر زور دیا کہ وہ مذاکراتی عمل کو پٹڑی سے اُتارنے کی کوششوں کو مل کر ناکام بنائیں۔
’’طالبان کے فلسفے کو ہم تسلیم نہیں کرتے، ان کے رویے اور طرز عمل کے بھی ہم مخالف ہیں، ہم بات چیت پائیدار امن کے لیے کرنا چاہتے ہیں ... میں سمجھتا ہوں اُنھیں اس وقت تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور اُنھیں اس بات کی ضرور سمجھ آ رہی ہو گی کہ یہ ڈرون حملہ اس ہی سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا گیا ہے اور یہ جو سازش ہے کہ یہ لڑ پڑیں آپس میں، اس میں نا پاکستان ریاست اور نا ہی طالبان کو آنا چاہیئے۔‘‘
طالبان کی جانب سے پاکستان میں ممکنہ جوابی حملوں سے متعلق سوال پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ شدت پسندوں کی آئندہ حکمت عملی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن حکومت اس سلسلے میں ضروری اقدامات کر رہی ہے۔
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے ہفتہ کو اپنی جماعت کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے اختتام پر کہا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی اور خیبر پختون خواہ، سندھ اور پنجاب کی صوبائی اسمبلیوں میں یہ قرار دادیں آئندہ ہفتے کے آغاز پر پیش کرے گی۔
اُنھوں نے صوبہ خیبر پختون خواہ کی اسمبلی میں اس نوعیت کی قرار داد کی متفقہ منظوری کی اُمید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو رسد سے لدے ٹرکوں کو صوبے کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
’’میں یہ واضح کر دوں کہ ہم یہ فیصلہ بالکل قانونی حد میں رہتے ہوئے کر رہے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کہ اگر آئندہ ڈرون حملے ہوں، اُن (طیاروں) کو یا گرا دیا جائے یا نیٹو سپلائی بند کی جائے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق ہم نیٹو سپلائی بند کریں گے۔‘‘
تحریک انصاف صوبہ خیبر پختوں خواہ میں اقتدار میں ہے جب کہ صوبہ بلوچستان کی اسمبلی میں اس جماعت کی کوئی نمائندگی نہیں۔
عمران خان نے حالیہ ڈرون حملے کو حکومتِ پاکستان اور طالبان کے درمیان مجوزہ مذاکرات کے خلاف سازش قرار دیا۔
پاک افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جمعہ کو ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کی ہلاکت ایسے وقت ہوئی جب عسکریت پسندوں کی قیادت اطلاعات کے مطابق حکومتِ پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات کی پیش کش پر غور کر رہی تھی، جب کہ حکومت کے نمائندہ وفد نے ہفتہ کو طالبان سے پہلا باضابطہ رابطہ بھی کرنا تھا۔
سیاسی حلقوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ان عوامل کے تناظر میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت مذاکراتی عمل کے لیے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر افراسیاب خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مستقبل قریب میں مذاکرات کے امکانات بہت کم ہو گئے ہیں۔
’’عسکریت پسندوں کے لیے شاید یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اس واقعے کے فوراً بعد مذاکرات کریں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کی صفوں میں کیا ہوتا ہے ... میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کے امکانات مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔‘‘
جماعتِ اسلامی کے رہنما سراج الحق نے کہا کہ پاکستان میں بحیثیت مجموعی اس خواہش کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات جلد از جلد شروع ہوں اور اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔
’’اب تک جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ حوصلہ شکن بھی نہیں، اُن (طالبان) کی طرف سے بھی کوئی ایسا بیان نہیں آیا ہے کہ مذاکرات ختم ہو گئے بلکہ محتاط انداز میں وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
حکمران مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے صحافیوں سے گفتگو میں فریقین پر زور دیا کہ وہ مذاکراتی عمل کو پٹڑی سے اُتارنے کی کوششوں کو مل کر ناکام بنائیں۔
’’طالبان کے فلسفے کو ہم تسلیم نہیں کرتے، ان کے رویے اور طرز عمل کے بھی ہم مخالف ہیں، ہم بات چیت پائیدار امن کے لیے کرنا چاہتے ہیں ... میں سمجھتا ہوں اُنھیں اس وقت تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور اُنھیں اس بات کی ضرور سمجھ آ رہی ہو گی کہ یہ ڈرون حملہ اس ہی سیاسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا گیا ہے اور یہ جو سازش ہے کہ یہ لڑ پڑیں آپس میں، اس میں نا پاکستان ریاست اور نا ہی طالبان کو آنا چاہیئے۔‘‘
طالبان کی جانب سے پاکستان میں ممکنہ جوابی حملوں سے متعلق سوال پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ شدت پسندوں کی آئندہ حکمت عملی کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن حکومت اس سلسلے میں ضروری اقدامات کر رہی ہے۔