پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کے انکشافات پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے فریقین سے اس ضمن میں کمیشن تشکیل دینے کے بارے میں رائے طلب کی ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے جب سماعت شروع کی تو وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے اپنے دلائل دوبارہ شروع کیے۔
انھوں نے ایک روز قبل عدالت عظمیٰ کی طرف سے پوچھے گئے تین سوالوں کا جواب دیتے ہوئے موقف کو دہرایا کہ مریم نواز وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں اور ان کے بقول اگر بیٹی اپنے والد کے گھر مقیم ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کی کفالت میں ہے۔
تاہم ان کے دلائل سنتے ہوئے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ وہ ابھی تک نکتے کو واضح نہیں کر سکے۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کہا کہ فریقین کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویزات کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے ناکافی ہیں لہذا کیوں نہ اس کی تحقیق کے لیے کمیشن بنا دیا جائے۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے مشاورت کے لیے عدالت عظمیٰ سے مہلت مانگی جس پر بینچ نے سماعت نو دسمبر تک ملتوی کر دی۔
وزیراعظم پر بدعنوانی اور دروغ گوئی کا الزام لگاتے ہوئے حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے اور بدھ کو بھی عدالت عظمیٰ میں ہونے والی سماعت کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان نے اپنے اس مطالبے اور موقف کو دہرایا۔
"اصل میں ہم اور ساری قوم ایک ہی چیز مانگ رہے ہیں کہ عدالت فیصلہ کرے۔۔۔اخلاقی جواز ہی نہیں ہے، وزیراعظم استعفیٰ دیں۔۔۔اس کی منطق نہیں کہ اگر کمیشن بیٹھے اوپر نواز شریف (بیٹھے) ہوں تو لوگ آزادانہ کیسے کام کریں گے لیکن اب ہم آپس میں مشاورت کریں گے۔ پھر سپریم کورٹ کو بتائیں گے۔"
معاملہ عدالت میں ہونے کے باوجود فریقین عدالت کے باہر بھی اپنے اپنے موقف کو ثابت کرنے میں سرگرداں ہیں اور ہر پیشی کے بعد دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات اور سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے چنندہ ارکان نے بھی بدھ کو ہونے والی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کی اور اس میں اپنے اس موقف کو دہرایا کہ وزیراعظم پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔
رکن قومی اسمبلی طلال چودھری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عدالت میں بھی اپنے موقف پر قائم ہیں جب کہ ان کے بقول تحریک انصاف الزامات ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی۔
"نواز شریف شریف اپنے موقف پر کھڑے ہیں۔ مہلت وہ مانگتے ہیں جن کے پاس ثبوت نہ ہوں، کہاں گئے وہ ثبوت۔۔۔عمران خان صاحب، نواز شریف تلاشی کے لیے تیار ہیں آپ تلاشی لینے سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ ہم آپ کو بھاگنے نہیں دیں گے آپ کو عدالت میں ہی لے کر آئیں گے۔"
کمیشن سے متعلق عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ اس میں متعلقہ ادارے تحقیقات میں معاونت کر سکتے ہیں اور اس کی سربراہی سپریم کورٹ کے جج کریں گے اور رپورٹ بینچ کے سامنے پیش کریں گے۔