وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے غیر ملکی اثاثوں اور مبینہ مالی بے ضابطگیوں کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اپنا کام جاری رکھے ہوئے اور عدالت عظمیٰ نے دس جولائی کو اسے تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا کہہ رکھا ہے۔
اب تک اس ٹیم کے سامنے وزیراعظم نواز شریف، ان کے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف، وزیراعظم کے دونوں بیٹے حسین اور حسن نواز، داماد محمد صفدر، قریبی رشتے دار طارق شفیع پیش ہو چکے ہیں۔
ان کے علاوہ سابق وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک سمیت بعض اعلیٰ عہدیدار بھی ٹیم کے سوالوں کے جوابات دینے کے لیے اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے۔
جمعرات کو قومی احتساب بیورو کے پہلے سربراہ سابق لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد بھی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کیے بغیر وہاں سے واپس چلے گئے۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق سابق عہدیدار سے شریف خاندان کی حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق سوال و جواب کیے گئے۔
2000ء میں اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے قومی احتساب بیورو قائم کیا تھا اور لیفٹیننٹ جنرل امجد کو اس کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق یہ ریفرنس دائر کیا گیا تھا کہ شریف خاندان نے مبینہ طور پر اس کے ذریعے جعلی اکاؤنٹس کا سہارا لیتے ہوئے خطیر رقم غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل کی تھی۔
شریف خاندان اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
دریں اثنا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) پر شریف خاندان کی ملکیت ایک شوگر ملز کے ریکارڈ میں ردوبدل کے الزام کی تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس تحقیقات کے لیے وفاقی تفتیشی ادارے ( ایف آئی اے) کو حکم دیا تھا جس کی ایک چار رکنی ٹیم نے گزشتہ ہفتے اپنا کام شروع کیا تھا۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق یہ ٹیم رواں ہفتے ہی اپنا کام مکمل کر لے گی۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے آئندہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم کے دونوں بیٹوں کے علاوہ بیٹی مریم نواز کو بھی علیحدہ علیحدہ طلب کر رکھا ہے۔