دھماکا پشاور میں چارسدہ روڈ پر ایک تبلیغی مرکز کے اندر ہوا اور اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں لوگ وہاں نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے موجود تھے۔
پشاور —
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک مذہبی اجتماع کے دوران ہونے والے بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے جب کہ امدادی اہلکاروں نے زخمیوں کی تعداد 50 سے زائد بتائی ہے۔
حکام کے مطابق بم دھماکا پشاور میں چارسدہ روڈ پر ایک تبلیغی مرکز کے اندر ہوا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے موجود تھے۔
خبیرپختونخواہ کے وزیر صحت شوکت یوسف زئی نے بھی دھماکے میں آٹح افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ اسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس شفقت ملک نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ دھماکا خیز مواد پہلے سے نصب تھا جس میں ریموٹ کنڑول سے دھماکا کیا گیا۔
شفقت ملک نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق پانچ کلو گرام بارودی مواد گھی کے ایک کنستر میں رکھا گیا تھا۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ہنگامی صورت حال نافذ کر دی گئی ہے اور صوبائی وزیر صحت شوکت یوسفزئی کے مطابق بڑی تعداد میں نوجوان خون کا عطیہ دینے کے لیے بھی اسپتال پہنچے ہیں۔
جس مرکز میں یہ دھماکا ہوا وہاں جمعرات کی شب سینکڑوں افراد عبادت کے لیے جمع ہو تے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ دہشت گردی کے لپیٹ میں رہا ہے اور وہاں سکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات اور عوامی مقامات پر دھماکے معمول کے واقعات ہیں لیکن تبلیغی مراکز میں شاذ و نادر ہی ایسے دھماکے ہوئے ہیں۔
پشاور اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران شدت پسندوں کی کارروائیوں میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
گزشتہ اتوار کو ضلع شانگلہ میں وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے قافلے پر بم حملہ ہوا تھا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے لیکن ان کے قافلے میں شامل پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی ماہ جنوبی ضلع ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی میں ایک کم سن طالب علم اعتزاز حسن اسکول پر خودکش حملہ ناکام بناتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔
اعتزاز نے اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک خودکش حملہ آور کو اسکول میں داخل ہونے سے قبل روک جس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کردیا۔
حکام کے مطابق بم دھماکا پشاور میں چارسدہ روڈ پر ایک تبلیغی مرکز کے اندر ہوا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ نماز مغرب کی ادائیگی کے لیے موجود تھے۔
خبیرپختونخواہ کے وزیر صحت شوکت یوسف زئی نے بھی دھماکے میں آٹح افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا تھا جہاں ڈاکٹروں نے بعض کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ اسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس شفقت ملک نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ دھماکا خیز مواد پہلے سے نصب تھا جس میں ریموٹ کنڑول سے دھماکا کیا گیا۔
شفقت ملک نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق پانچ کلو گرام بارودی مواد گھی کے ایک کنستر میں رکھا گیا تھا۔
لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ہنگامی صورت حال نافذ کر دی گئی ہے اور صوبائی وزیر صحت شوکت یوسفزئی کے مطابق بڑی تعداد میں نوجوان خون کا عطیہ دینے کے لیے بھی اسپتال پہنچے ہیں۔
جس مرکز میں یہ دھماکا ہوا وہاں جمعرات کی شب سینکڑوں افراد عبادت کے لیے جمع ہو تے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخواہ دہشت گردی کے لپیٹ میں رہا ہے اور وہاں سکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات اور عوامی مقامات پر دھماکے معمول کے واقعات ہیں لیکن تبلیغی مراکز میں شاذ و نادر ہی ایسے دھماکے ہوئے ہیں۔
پشاور اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران شدت پسندوں کی کارروائیوں میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
گزشتہ اتوار کو ضلع شانگلہ میں وزیراعظم کے مشیر امیر مقام کے قافلے پر بم حملہ ہوا تھا جس میں وہ خود تو محفوظ رہے لیکن ان کے قافلے میں شامل پانچ سکیورٹی اہلکاروں سمیت چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسی ماہ جنوبی ضلع ہنگو کے علاقے ابراہیم زئی میں ایک کم سن طالب علم اعتزاز حسن اسکول پر خودکش حملہ ناکام بناتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔
اعتزاز نے اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک خودکش حملہ آور کو اسکول میں داخل ہونے سے قبل روک جس نے اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کردیا۔