اس خوش آئند پیش رفت کے ساتھ ساتھ ایک تشویشناک امر یہ بھی ہے کہ رواں برس پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد تین درجن تک پہنچ چکی ہے جن میں اکثریت کا تعلق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے۔
پشاور —
صوبہ خیبر پختونخواہ میں عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مرکزی شہر پشاور میں جنوری کے اواخر میں شروع ہونے والی ہفتہ وار مہم کے دوران اب تک ساڑھے سات لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاچکے ہیں جب کہ آئندہ ماہ اس مہم کا دائرہ صوبے کے تین دیگر اضلاع تک بڑھا کر پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 16 لاکھ بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صوبائی وزیر صحت شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کے لیے کی جانے والی کوششوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کا اعتراف بین الاقوامی اداروں کی حالیہ رپورٹ میں بھی کیا جاچکا ہے۔
’’مہم ہم نے بڑی زور و شور سے چلائی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب ہوئے اور آپ کو پتا ہوگا کہ عالمی ادارہ صحت نے پشاور کو پولیو وائرس کا گڑھ قرار دیا تھا لیکن کل ہی ان کی دوبارہ رپورٹ آئی ہے کہ دو علاقوں سے حاصل کردہ نمونوں سے وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی تو یہ ہمارے لیے خوش آئند بات ہے۔‘‘
لیکن اس خوش آئند پیش رفت کے ساتھ ساتھ ایک تشویشناک امر یہ بھی کہ رواں برس پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد تین درجن تک پہنچ چکی ہے جن میں اکثریت کا تعلق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے۔
اس کی وجہ یہاں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو کی ٹیموں کی رسائی کا نہ ہونا بتائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ''یونیسف'' کی عہدیدار شاداب یونس نے اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 36 میں 28 کیسز شمالی وزیرستان سے رپوٹ ہوئے جب کہ ایک جنوبی وزیرستان، ایک خیبر ایجنسی اور ایک بنوں کے نیم قبائلی پٹی سے رپورٹ ہوا۔ ان کے بقول پشاور سے اب تک تین اور ایک بنوں سے جب کہ ایک کیس کراچی سے سامنے آیا ہے۔
صوبائی وزیرصحت شوکت یوسفزئی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں گورنر سے رابطے میں ہیں تاکہ ان علاقوں سے پولیو وائرس کی خیبر پختونخواہ منتقلی کو بھی روکنے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور سے ملحقہ جن علاقوں میں سکیورٹی خدشات کی بنا پر گزشتہ ہفتوں کے دوران انسداد مہم شروع نہیں کی جاسکی تھی اس بار وہاں بھی محدود تعداد میں انسداد پولیو کے رضا کار بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے گئے۔ ان علاقوں میں سلمان خیل کا علاقہ بھی شامل ہے۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی موذی بیماری پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین اور حکومتی عہدیدار بھی یہ خدشہ ظاہر کرتے آ رہے ہیں کہ اگر پولیو سے بچاؤ کی مہم تواتر سے جاری نہ رکھی گئی تو اس موذی وائرس کے مکمل خاتمے کے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہوں گے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں صوبائی وزیر صحت شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ انسداد پولیو کے لیے کی جانے والی کوششوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کا اعتراف بین الاقوامی اداروں کی حالیہ رپورٹ میں بھی کیا جاچکا ہے۔
’’مہم ہم نے بڑی زور و شور سے چلائی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب ہوئے اور آپ کو پتا ہوگا کہ عالمی ادارہ صحت نے پشاور کو پولیو وائرس کا گڑھ قرار دیا تھا لیکن کل ہی ان کی دوبارہ رپورٹ آئی ہے کہ دو علاقوں سے حاصل کردہ نمونوں سے وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی تو یہ ہمارے لیے خوش آئند بات ہے۔‘‘
لیکن اس خوش آئند پیش رفت کے ساتھ ساتھ ایک تشویشناک امر یہ بھی کہ رواں برس پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد تین درجن تک پہنچ چکی ہے جن میں اکثریت کا تعلق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے۔
اس کی وجہ یہاں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو کی ٹیموں کی رسائی کا نہ ہونا بتائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ''یونیسف'' کی عہدیدار شاداب یونس نے اب تک رپورٹ ہونے والے کیسز کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 36 میں 28 کیسز شمالی وزیرستان سے رپوٹ ہوئے جب کہ ایک جنوبی وزیرستان، ایک خیبر ایجنسی اور ایک بنوں کے نیم قبائلی پٹی سے رپورٹ ہوا۔ ان کے بقول پشاور سے اب تک تین اور ایک بنوں سے جب کہ ایک کیس کراچی سے سامنے آیا ہے۔
صوبائی وزیرصحت شوکت یوسفزئی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ وہ اس ضمن میں گورنر سے رابطے میں ہیں تاکہ ان علاقوں سے پولیو وائرس کی خیبر پختونخواہ منتقلی کو بھی روکنے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور سے ملحقہ جن علاقوں میں سکیورٹی خدشات کی بنا پر گزشتہ ہفتوں کے دوران انسداد مہم شروع نہیں کی جاسکی تھی اس بار وہاں بھی محدود تعداد میں انسداد پولیو کے رضا کار بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے گئے۔ ان علاقوں میں سلمان خیل کا علاقہ بھی شامل ہے۔
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی موذی بیماری پولیو کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین اور حکومتی عہدیدار بھی یہ خدشہ ظاہر کرتے آ رہے ہیں کہ اگر پولیو سے بچاؤ کی مہم تواتر سے جاری نہ رکھی گئی تو اس موذی وائرس کے مکمل خاتمے کے اہداف حاصل کرنا ممکن نہیں ہوں گے۔