پاکستان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا اطلاق جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب سے ہو گیا ہے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے اس فیصلے کا اعلان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب وفاقی حکومت کو بڑھتے ہوئے مالی خسارے کا چیلنج درپیش ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کی بحالی بھی تاخیر کا شکار ہے، جب کہ ملک میں سیاسی صورت حال بھی کشیدہ ہے۔
پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کے بعد پٹرول 179.86 روپے، ڈیزل 174.15 روپے، مٹی کا تیل 155.56 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت 148.31 روپے ہو گئی ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وضاحت کی کہ حکومت نے یہ" مشکل" فیصلہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کی بحالی کے ضمن میں کیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مشکل معاشی حالات میں عوام پر کچھ بوجھ ڈالنا ناگزیر ہو چکا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پیٹرول اور ڈیزل پر دی گئی رعایت کے باعث گزشتہ دوہفتوں میں حکومت کو 55 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
" یہ(اضافی بوجھ) حکومت برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر سو، سوا سو ارب روپیہ نقصان اس مہینے ہوگا تو وہ ہماری حکومت کو چلانے کے 42 ارب روپے کے کل خرچے سے تین گنا زیادہ ہوگا"۔
SEE ALSO: آئی ایم ایف سے قرض کی کوشش؛ شرح سود میں ڈیڑھ فی صد اضافے کا اعلانخیال رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قطر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئےتھے جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام میں سے تقریباً ایک ارب ڈالر کی قسط رکی ہوئی ہے۔
عالمی ادارے کے پروگرام کے تحت پاکستان پہلے تین ارب ڈالرز حاصل کر چکا ہے جب کہ خبروں کےمطابق آئی ایم ایف نے اگلی قسط کے اجرا کو پاکستان کی معاشی اصلاحات سے مشروط کیا ہے۔
اندرونی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو نہ صرف سالانہ وفاقی بجٹ پیش کرنا ہے بلکہ سیاسی حریف سابق وزیر اعظم کی جانب سے اقتصادی کارکردگی اور مہنگائی جیسے مسائل پر تنقید کا بھی سامنا کرنا ہوگا ۔
پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر الزام لگایا کہ انہوں نے پیٹرول کی قیمتوں کو منجمد کیا اور معیشت کو نقصان پہنچایا۔
ایک سوال کے جواب میں مفتاع اسماعیل نے تسلیم کیا کہ انہوں نےماضی میں عمران خان حکومت کے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر تنقید کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ ان کی تنقید اس نکتے پر تھی کہ اس وقت کی حکومت تیس فیصد لیوی اور سترہ فیصد لگانے کی بات کر رہی تھی جس کی وجہ سے پی ٹی آئی (پاکستان تحریک انصاف) کی حکومت نے عوام پر بوجھ ڈالا۔
انہوں نےالزام لگایا کہ سابق وزیر اعظم عمران کے ذاتی مفاد پر ہر چیز قربان ہوتی ہے ''اور جب ان کو لگا کہ ان کی حکومت جانے والی ہے تو انہوں نے کمی کرکے ایک بارودی سرنگ رکھ دی''۔
وزیر خزانہ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت بھی حکومت پاکستان قیمت خرید سے 56 روپے کم قیمت پر ڈیزل مہیا کر رہی ہے اور موجودہ حکومت نئے ٹیکس لگانے کی تو بات ہی نہیں کر رہی ۔
تیل کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پارٹی کے نائب چیرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ موجودہ وزیر خزانہ ہم پر تنقید کیا کرتے تھے کہ ہماری حکومت نااہل تھی اور ہم کہا کرتے تھے کہ قیمتوں میں اضافے کا دارو مدار بین الااقوامی عوامل پر ہے کیونکہ پاکستان اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیل در آمد کرتا ہے۔
سابقہ حکومت کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کی خاطر انہوں نے کچھ سست روی سے چلنے والے منصوبوں سے رقوم کو منتقل کرکے اس مسئلےسے نمٹا اور جون تک عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا اقدام کیا۔موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئےسابق وزیر خارجہ نے سوال اٹھا یا کہ یہ باتیں تو نیویارک میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں ہوئی تھیں تو پھر دوحہ مذاکرات میں نیا کیا ہواؕ؟
"یہ تذبذب کا شکار ہیں، معلوم نہیں آگے بڑھنا ہے، پیچھے ہٹنا ہے۔ کل تک کہہ رہے تھے (قیمتیں) نہیں بڑھائیں گے ،آج بڑھا دیں"۔
انہوں نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری پر بھی تنقید کی کہ انہوں نے مہنگائی کے خلاف مارچ کیا تھا اور اب وہ بتائیں کہ پیڑولیم قیمتوں میں اضافے سے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کا حکومتی فیصلہ حزب اختلاف کے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کے ایک روزبعد کیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت وفاقی بجٹ کی بھی تیاری کر رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان حکومت سےدست بردار ہونے اور فوری عام انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔