پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے انٹیلی جنس ادارے 'آئی ایس آئی' کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کر دیا ہے۔
'ای سی ایل' میں نام ہونے کے باعث اسد درانی اُس وقت ملک سے باہر نہیں جا سکتے جب تک اُن کا نام اس فہرست میں شامل ہے۔
رواں ہفتے پاکستان کی فوج نے اسد درانی کے خلاف اعلیٰ سطحی تحقیقات کا باضابطہ حکم دیتے ہوئے وزارتِ داخلہ سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کی تھی۔
وزارتِ داخلہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی تجویز پر اسد دارنی کا نام 'ای سی ایل' میں شامل کیا گیا ہے اور اس حوالے سے متعلقہ اداروں کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
اسد درانی نے بھارت کے انٹیلی جنس ادارے ’را‘ کے سابق سربراہ ایس اے دلت کے ساتھ مل کر 255 صفحات پر مشتمل 'دی اسپائی کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس' نامی کتاب تحریر کی ہے جس کی حال ہی میں بھارت میں رونمائی ہوئی تھی۔
اس کتاب میں اسد درانی سے منسوب بعض حصوں اور دعووں پر پاکستان میں مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس کتاب کی اشاعت پر اسد درانی کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
ان مطالبات اور سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے بعد رواں ہفتے پاکستانی فوج نے 'آئی ایس آئی' کے سابق سربراہ کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر بلا کر اُن سے وضاحت طلب کی تھی۔
فوج کے مطابق اسد درانی نے ملٹری کوڈ آف کنڈٹ کی خلاف ورزی کی ہے۔
فوجی ترجمان کے مطابق اس معاملے کی تفتیش کے لیے باضابطہ طور پر ایک حاضر سروس لیفٹننٹ جنرل کی سربراہی میں خصوصی عدالت تشکیل دے کر اسد درانی کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
اسد درانی 1990ء سے 1992ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ہیں۔
آئی ایس آئی کے کسی بھی سابق سربراہ کے خلاف اس طرح کی کارروائی اور اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کی ملک کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔