|
برطانیہ کی یونیورسٹی آ ف لیڈز کی ایک ریسرچ سے ظاہرہوا کہ پاکستان دنیا بھر میں پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے آٹھ ملکوں میں شامل ہے ۔ اور اس کا سب سے بڑا صنعتی شہر کراچی پلاسٹک کا سب سے زیادہ کچرا پیدا کرنے والے پہلے چار شہروں میں شامل ہے ۔
اس ریسرچ میں جو حال ہی میں جریدے نیچر میں شائع ہوئی ریسرچرز نے پچاس ہزار سے زیادہ شہروں اور قصبوں میں مقامی طور پر پیدا ہونے والے پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کا جائزہ لیا گیا تھا۔
پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں پلاسٹک کے کچرے کے مسئلے پر وائس آف امریکہ نےکراچی کی ایک ممتاز صحافی زوفین ابراہیم سے بات کی جو کلائیمیٹ چینج، پانی انرجی، اربن انفرااسٹرکچر ، اور متعدد دوسرے مسائل پر انگریزی روزنامہ ڈان، گارڈین ، تھرڈ پول، تھامسن رائٹرز فاؤندیشن اور انڈیکس آن سنسرشپ میں باقاعد گی سے لکھتی ہیں اور خاص طور پر کراچی میں پلاسٹک کی آلودگی کے مسائل پر بہت کچھ لکھ چکی ہیں۔
کراچی میں روزانہ بارہ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے
زوفین نے بتایا کہ سندھ سولیڈ ویسٹ مینیج مینٹ بورڈ کے مطابق کراچی جو دو کروڑ لوگوں کا شہر ہےروزانہ لگ بھگ 12 ہزار ٹن کچرا پیدا کرتا ہے جس میں سے لگ بھگ بیس فیصد پلاسٹک کا کچرا ہوتا ہے ۔ جو خالی پلاٹوں سے لے کر سڑک کے کناروں، ندی نالوں ، اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں میں ہر جگہ بکھرا ہوتا ہے ۔ اس سب کچرے کو کوئی ایک ادارہ اکٹھا یا تلف کرنے کا زمہ دار نہیں ہوتا اور ان میں سے ہر ایک اپنے طریقے سے انہیں اکٹھا اور تلف کرتا ہے اور اسی لیے ان کے درمیان ربط کی کمی سے اس مسئلے کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے ۔
دریائے سندھ پلاسٹک کچرے کا دوسرا سب سے بڑا آلودہ دریا ہے۔
ورلڈ بینک کی 2022 کی ایک رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ دریائے سندھ سے بحیرہ عرب میں چالیس فیصد کچرا شامل ہوتا ہے جس کا تین چوتھائی حصہ گراسری ، کچرے کے بیگز، جوس کے ڈبوں، سینیٹری نیپکنز ، ڈائیپرز ، فیس ماسک، بینڈیج ، سرنجز اور کئی تہوں کی پیکیجنگ میں استعمال ہونے والا باریک پلاسٹک ہوتا ہے ۔ ان کو پھینکنا آسان ہے لیکن اکٹھا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
پلاسٹک کے تھیلے اور ڈسپوز ایبل برتن
زوفین کا کہنا تھا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف، پاکستان کی ایک ریسرچ کے مطابق سال بھر میں ملک بھر کے کل کچرے کا 65 فیصد آخر کار ساحلوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اور ملک بھر میں پلاسٹک کے 55 ارب سنگل یوزتھیلے یا شاپرزاستعمال ہوتے ہیں جن کی تعداد میں لگ بھگ 15 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔
زوفین کا کہنا تھا کہ کراچی گزشتہ چند برسوں سے شدید اور غیر یقینی مون سون کی بارشوں کا سامنا کر رہا ہے جس کے نتیجے میں سیلاب آرہے ہیں ۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ماہرین کے مطابق ایک بار استعمال کے بعد پھینک دیے جانے والے پلاسٹک کے تھیلوں یا شاپرز کا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کے نتیجے میں پلاسٹک کے کچرے کا شہر کے ڈرینیج سسٹم میں شامل ہونا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ بارشوں کی وجہ پلاسٹک کے شاپرز نہیں بلکہ شہر کا کچرا اکٹھا کرنے اور ڈرینیج کا خراب سسٹم ہے ۔
پاکستان میں پلاسٹک کے کچرے کی آلودگی کے بارے میں وائس آف امریکہ نے پاکستان کی پہلی خاتون اوشینیو گرافر، سمندری علوم کی ماہر ڈاکٹر نزہت خان سے بات کی جو مسنٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تحت کام کرنے والے ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی، کی پہلی خاتون ڈائریکٹر جنرل رہ چکی ہیں ۔
پلاسٹک کے استعمال کی تاریخ
ڈاکٹر نزہت خان نے پلاسٹک کے استعمال کی تاریخ پر روشنی ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال 1950 کے وسط میں شروع ہوا تھا اور اس نے زندگی کو تبدیل کر دیا کیوں کہ یہ ہلکا، پائدار سستا اور آسان تھا اور چیزیں لانے لے جانے، خاص طور پر فوڈ سیفٹی ، فوڈ پریزرویشن اور ہیلتھ کے کئی سنٹرز میں اس سے بہت فائدہ ہوا۔ لیکن پھر اس کی بے تحاشہ پروڈکشن اور اس کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے اس کا جو کچرا بنا اسے تلف کرنے کے بندو بست پر اس پیمانے پر کام نہیں کیا گیا جتنے بڑے پیمانےپر وہ پیدا ہوا۔ کیوںکہ یہ ہمیشہ رہنے والی چیز ہے جسے یہاں دنیا میں رہنا ہے اور کوئی اور ایسا سیارہ نہیں ہے جہاں ہم اسے بھیج سکیں۔
پاکستان میں ہر سال تین اعشاریہ نو ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پلاسٹک کے ماحولیات اور صحت پر سنگین اثرات ہو رہے ہیں۔ ملک میں ہر سال لگ بھگ تین اعشاریہ نو ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں سے 70 فیصد کو مس مینیج کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ کچرا لینڈ فلز میں، ڈمپس اور ندی نالوں میں جمع ہو جاتا ہےاور آخر کار سمندر میں جا گرتا ہے یا اس کے ساحلوں پر بکھرا نظر آتا ہے۔
پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں پلاسٹک کی آلودگی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نزہت نے کہا کہ پاکستان میں پلاسٹک کے کچرے کے بہت کم ڈمپس یا کوڑہ گھر ہیں کراچی میں بھی یہ ہی صورتحال ہے جام چھاکڑو میں ایک بڑی ڈمپ سائٹ ہے اور چند ایک اور ہیں لیکن باقاعدہ بنائی گئی ڈمپ سائٹس نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کا پلاسٹک کا تمام کچرا آخر کار سمندر اور اس کے ساحلوں پر جمع ہورہا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی نقصان دہ گیسز ارد گرد کے ماحول اور آبی حیات کےلیے خطرہ بن رہی ہیں۔
پھر پلاسٹک کو اکٹھا کرنے کا کام نجی سیکٹر کرتا ہے جو زیادہ اچھی طرح مینیج نہیں کرتا اور بچے اور غریب لوگ انہیں چنتے ہیں اور زیادہ تر بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرے کا شکار رہتے ہیں۔
امیر ملکوں کا کچرا غریب ملکوں میں
انہوں نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کیوں کہ قانونی اور انتظامی سسٹم بہتر ہیں اس لیے وہ تو انہیں ہینڈل کر لیتے ہیں لیکن وہ بھی اسے ڈسپوز آف کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور وہ غریب ملکوں کو اپنا پلاسٹک کا کچرا کبھی امداد کی صورت میں کبھی ویسٹ میٹیریل کی صورت میں اور کبھی پرانے آلات کی شکل میں ایکسپورٹ کر دیتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ پلاسٹک شاپرز جہاں ندی نالوں کو بند کرتے ہیں وہاں حس لطافت پر گراں گزرتے ہیں ، پلاسٹک پر خواہ وہ سمندر میں ہو یا یا خشکی پر دونوں جگہ بیکٹیریا اور وائرس پیدا ہو جاتے ہیں۔ جو انسانی اور آبی حیات کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں ۔ لیکن اس پر نہ تو بات ہوتی ہے اور نہ ہی زیادہ ریسرچ ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: کراچی، پلاسٹک سے سمندر کا دم گھٹ رہا ہےپاکستان میں پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے اقدام
ڈاکٹر نزہت خان نے جو یو این ڈی پی میں ایک ماحولیاتی کنسلٹنٹ بھی رہ چکی ہیں اور متعدد بین الاقوامی اداروں کےساتھ مل کر کام کر چکی ہیں، کہا کہ پاکستانی حکومت نے 2019 میں پلاسٹک بیگز سنگل یوز پلاسٹک بیگز کا استعمال بین کر دیا اور دوسرے متبادل تھیلوں کو پروموٹ کیا لیکن اس قانون پر موثر طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا.
کلین گرین پاکستان انڈیکس جیسے انو ویٹیو پروگراموں سے شہروں کو صحت مند مسابقت سے سینی ٹیشن اور ویسٹ مینیج مینٹ کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ آگاہی کی مہمیں چلائی گئیں جیسے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے ایڈو کیسی مہم چلائی ساحلوں کی صفائی کی مہم اور ری سائیکلنگ کو پروموٹ کرنے کی مہمیں چلیں۔ لیکن جس پیمانے پر پلاسٹک کا استعمال بڑھ رہا ہے اس کا کچرا پیدا ہورہا ہے اسکی تلفی کےلیے وسائل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے
Your browser doesn’t support HTML5
آب و ہوا کا بحران
ڈاکٹر نزہت نے بتایا کہ کراچی میں خشکی اور پانیوں میں بکھرا ہوا یہ پلاسٹک کا کچرا آب و ہوا کے بحران کی بھی ایک وجہ بن رہا ہے ۔ کیوں کہ اس کو بنانے اور اس کو تلف کرنے میں معدنی ایندھن کے استعمال سے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں بھی ایک کردار ادا کر رہا ہے ۔ تو یہاں پلاسٹک کے کچرے کا مسئلہ کئی وجوہات کی وجہ سے دوگنا تین گنا ہو جاتا ہے۔
حل کیا ہے؟
زوفین ابراہیم نے کہاکہ پلاسٹک اس وقت اتنا زیادہ ہماری زندگیوں میں داخل ہو چکا ہے اور ہم اس کے اتنے زیادہ عادی ہو چکے ہیں کہ اسے ختم کرنا بہت مشکل ہے ۔ اگر اسے دبا دیا جائے تو ابھی تلف ہونے میں بیس سے 500 سال لگ سکتے ہیں۔
اور اس مسئلے کوحل کرنے کے لیےہمارےپاس سب سے مناسب، آسان اور قابل عمل طریقہ یہ ہی ہے کہ اسے کم سے کم استعمال کریں ۔ یا اسے ری سائیکل کریں اور اسے کسی اور شکل میں اپنی زندگیوں میں واپس لائیں ۔
جیسا کہ اب کچھ فیکٹریوں نے پلاسٹک کے کچرے سے بنچز، گارڈن فرنیچر، ہنگامی شیلٹرزاورگٹر کے ڈھکن بنانے شروع کیے ہیں ۔ وہ پلاسٹک کے کچرے کومضبوط اور بھاری لکڑی کی شکل میں تبدیل کردیتے ہیں جسے وہ گرین ووڈ کہتے ہیں ۔جو چھونے پر لکڑی جیسی سخت ہوتی ہے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر نزہت نے کہاکہ اس سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں میں اس کے نقصانات کے بارے میں اور اس کے کم سےکم استعمال کے بارے میں آگاہی بڑھائی جائے اور حکومت اور عوام دونوں اس مسئلے کو زمہ دارانہ طریقے سے ہینڈل کریں۔
ملکوں کو عالمی سطح پر ری سائیکلنگ انفرا اسٹرکچر اورویسٹ مینیجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانا چاہیے، اس کے لیے تعاون کو بڑھانا چاہیے، پلاسٹک کی پروڈکشن اور اس کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مل کر پالیسیاں بنانی چاہئیں اور معاہدے کرنے چاہیں۔