پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سعودی عرب میں ہونے والی ایک بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے پیر کو سعودی عرب روانہ ہو گئے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق وزیر اعظم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں 23 اکتوبر سے 25 اکتوبر تک ہونے والی تین روزہ کانفرنس کے پہلے اجلاس میں شرکت کریں گے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات اور مواقع کے بارے میں بات کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے دی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم ایک ایسے وقت میں اس کانفرنس میں شرکت کر یں گے جب رواں ماہ کے اوائل میں ترکی کے شہر استنبول میں واقع قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت کے معاملے پر سعودی حکومت اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
دوسری طرف متعدد بین الاقوامی کاروباری اداروں کے سربراہان اور امریکہ سمیت مغربی ملکوں کے اعلیٰ حکام ہلاکت کے بعد اس کانفرنس میں شرکت سے پہلے ہی انکار کر چکے ہیں۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر پاکستان کے وزیر اعظم کے لیے اس کانفرنس میں شرکت کرنا ضروری ہے جن میں پاکستان کو سعودی عرب کے باہمی تعلقات اور اس وقت درپیش اقتصادی مشکلات بھی شامل ہیں۔
پیر کو وائس ۤآف امریکہ گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا کہنا تھا کہ ایک تو سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات خاص نوعیت کے حامل ہیں، اس کے ساتھ اس وقت پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات بھی ہیں اور پاکستان سعودی عرب سے اقتصادی شعبوں میں تعاون حاصل کرنے کا متمنی ہے۔ اسلئے پاکستان کے لیے جمال خوشوگی کے معاملے پر کھل کر کسی ردعمل کا اظہار کرنا ممکن نہیں ہے۔"
پاکستان کے اعلیٰ عہدیدار یہ کہ چکے ہیں کہ اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر 10 سے 12 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جن کے حصول کے لیے حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کے بقول عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے ساتھ بھی بات چیت ہو رہی ہے۔
اقتصادی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں وزیر اعظم سعودی عرب میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب سمیت دنیا کے دیگر ملکوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔
" اگر بیرونی سرمایہ کاری آتی ہے تو اس کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس تناظر میں پاکستان کو دوست ممالک کے ساتھ دنیا کے باقی ملکوں سے بھی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔"
واضح رہے کہ رواں سال اگست میں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان کا یہ سعودی عرب کا دوسرا دورہ ہو گا اور اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے دورے کے بعد وزیر اعظم ملائیشیا اور چین بھی جائیں گے۔ تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ نے ابھی تک ان کے دورے کے بارے میں کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے۔