پاکستان نے خطے میں سلامتی کی بدلتی صورتحال کے تناظر میں ملکی سلامتی کے دفاع کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر ہر قسم کا اقدام بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
بدھ کو راولپنڈی میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس ہوا جس میں اندرونی سلامتی کی صورتحال اور ملک کے جوہری اثاثہ جات کے تحفظ سے متعلق کیے گئے انتظامات کا جائزہ لیا گیا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان مطابق اجلاس میں ہرقسم کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے مکمل دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی طرف سے پاکستان کے جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ڈھانچے اور اسٹریٹیجک اثاثہ جات کے تحفظ سے متعلق انتظامات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے علاوہ دفاع، خزانہ، داخلہ کے وزرا اور مشیر خارجہ بھی شریک تھے۔
بیان کے مطابق ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہونے کے ناطے پاکستان جوہری عدم پھیلاؤ کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرنے کے عزم پر قائم ہے۔
ایک عرصے سے پاکستان کے جوہری پروگرام اور اس کے ہتھیاروں کے تحفظ سے متعلق خصوصاً مغربی ذرائع ابلاغ میں خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، تاہم پاکستانی عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ ملک کے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لیے وضع کردہ نظام انتہائی فعال اور مضبوط ہے۔
اجلاس میں پاکستان کے اس موقف کو بھی دہرایا گیا کہ وہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بغیر کسی امتیاز کے شریک ہونے کا اہل ہے اور پاکستان کو پرامن مقاصد بالخصوص توانائی کی اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے سول ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی کا اختیار ہے۔
دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بننے والا ملک پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی ہے جب کہ اس کا ہمسایہ اور روایتی حریف بھارت اس گروپ کا رکن بننے کے طرف قابل ذکر حد تک پیش رفت کر چکا ہے۔
سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اس گروپ میں شامل ہونے سے جہاں پاکستان کوجوہری میدان میں دیگر فوائد حاصل ہوں گے وہیں سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ بیرونی دنیا میں اس کے جوہری معاملات پر اس کی بات کو سنجیدگی سے سنا جائے گا۔
"اس میں جو فیصلہ سازی ہوگی اس میں آپ شریک ہوں گے اور آپ کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکے گا۔۔۔آپ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں گے۔"
بدھ کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے اس موقف کو بھی دہرایا گیا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا خواہاں ہے اور اس کے لیے تنازعات کا حل کیا جانا ضروری ہے۔
حال ہی میں دو امریکی تھنک ٹینکس نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان تیزی سے جوہری ہتھیار بنانے والا ملک ہے اور اگر اس نے اسی رفتار سے یہ سلسلہ جاری رکھا تو ایک دہائی میں اس کے پاس جوہری ہتھیاروں کی تعداد 350 ہو جائے گی۔
پاکستان کی طرف سے اس رپورٹ کو بے بنیاد اور قیاس پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ درست نہیں کہ پاکستان تیزی سے جوہری ہتھیار بنا رہا ہے۔