وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پولیس کی موجودگی میں ایسا بہمیانہ قتل کسی طور قابل برداشت نہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ایک شادی شدہ خاتون کو اُس کے خاندان کے افراد کی طرف سے اینٹوں سے حملہ کر کے قتل کرنے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے صوبہ پنجاب سے اس ضمن میں فوری رپورٹ طلب کی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پولیس کی موجودگی میں ایسا بہمیانہ قتل کسی طور قابل برداشت نہیں، اُنھوں نے حکم دیا کہ اس قتل میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
رواں ہفتے منگل کو 25 سالہ فرزانہ نامی خاتون اپنے خاندان کی طرف سے اپنے شوہر کے خلاف اغوا کا مقدمہ خارج کروانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ پہنچی تھی کہ وہاں موجود اس کے والد اور بھائیوں سمیت خاندان کے دیگر افراد نے اینٹوں سے حملہ کر کے اُسے قتل کر دیا۔
فرزانہ کے شوہر محمد اقبال نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ جب اُن کی بیوی پر حملہ کیا گیا تو وہاں پولیس موجود تھی لیکن ’منت سماجت‘ کے باوجود پولیس اہلکاروں نے ان کی کوئی مدد نا کی۔
پاکستان میں پسند کی شادی کی وجہ سے خاندان کے افراد کی جانب سے ’’غیرت کے نام‘‘ پر قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہائی کورٹ کے سامنے ایک نوجوان خاتون کے قتل سے متعلق فوری طور پر مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں تفصیلات سامنے آنے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔
اقوام متحدہ کی حقوق انسانی سے متعلق ہائی کمشنر نوی پلے نے بھی اپنے ایک بیان میں 25 سالہ حاملہ خاتون کے غیرت کے نام پر قتل کی شدید مذمت کی تھی۔
نوی پلے کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لیے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی اصطلاح بھی استعمال نہیں کرنا چاہتیں، اُن کے بقول کسی بھی خاتون کو اس طرح جان سے مار دینا قطعی طور پر غیرت کا کام نہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے ایک بیان میں فرزانہ کے قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا قانون تمام بالغ شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی شادی کر سکیں۔
کمیشن کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ قتل کے اس واقعہ کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
’’جو غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ ہے، اس کو بھی قتل ہی سمجھنا چاہیئے اور جو قتل ہوتا ہے وہ ریاست کے خلاف جرم ہوتا ہے اور اگر لوگ کسی ذاتی بنیاد پر آپس میں اس کا سمجھوتہ نہیں کرتے تو پھر فرق آئے گا۔‘‘
خواتین کی حالت زار سے متعلق قومی کمیشن کی سربراہ خاور ممتاز کہتی ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اس واقعہ کا نوٹس لینے سے تفتیش اور تحقیقات کے عمل میں تیزی آئے گی۔
’’ہم ہر دوسرے روز تیسرے روز کوئی قصہ سنتے ہیں لیکن یہ تو کچھ اتنا خوفناک تھا کہ اس سے تو ہم سب ہل گئے اور رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تو اس کو دیکھتے ہوئے ( وزیراعظم کا) اس کا نوٹس لینا ہے میرے خیال میں بہت اہم ہے۔ ہم اس سے امید رکھتے ہیں کہ اس کا جو قانون ہے اس کا پورے طریقے سے اطلاق ہو گا۔ جو بندہ پکڑا گیا ہے اور باقی جو چھ لوگ ہیں جن کے بارے 'ایف آئی آر' رجسٹر ہوئی ہے اور مقدمات درج ہوئے ان سب کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘‘
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں صرف 2013ء میں ”غیرت کے نام پر“ 900 خواتین کے قتل کے واقعات قلمبند کیے گئے تھے۔ تاہم مبصرین اور حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں کا ماننا ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد حقیقت میں کہیں زیادہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پولیس کی موجودگی میں ایسا بہمیانہ قتل کسی طور قابل برداشت نہیں، اُنھوں نے حکم دیا کہ اس قتل میں ملوث مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
رواں ہفتے منگل کو 25 سالہ فرزانہ نامی خاتون اپنے خاندان کی طرف سے اپنے شوہر کے خلاف اغوا کا مقدمہ خارج کروانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ پہنچی تھی کہ وہاں موجود اس کے والد اور بھائیوں سمیت خاندان کے دیگر افراد نے اینٹوں سے حملہ کر کے اُسے قتل کر دیا۔
فرزانہ کے شوہر محمد اقبال نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ جب اُن کی بیوی پر حملہ کیا گیا تو وہاں پولیس موجود تھی لیکن ’منت سماجت‘ کے باوجود پولیس اہلکاروں نے ان کی کوئی مدد نا کی۔
پاکستان میں پسند کی شادی کی وجہ سے خاندان کے افراد کی جانب سے ’’غیرت کے نام‘‘ پر قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہائی کورٹ کے سامنے ایک نوجوان خاتون کے قتل سے متعلق فوری طور پر مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں تفصیلات سامنے آنے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔
اقوام متحدہ کی حقوق انسانی سے متعلق ہائی کمشنر نوی پلے نے بھی اپنے ایک بیان میں 25 سالہ حاملہ خاتون کے غیرت کے نام پر قتل کی شدید مذمت کی تھی۔
نوی پلے کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لیے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی اصطلاح بھی استعمال نہیں کرنا چاہتیں، اُن کے بقول کسی بھی خاتون کو اس طرح جان سے مار دینا قطعی طور پر غیرت کا کام نہیں۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی اپنے ایک بیان میں فرزانہ کے قتل پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا قانون تمام بالغ شہریوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی شادی کر سکیں۔
کمیشن کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ قتل کے اس واقعہ کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
’’جو غیرت کے نام پر قتل کا مسئلہ ہے، اس کو بھی قتل ہی سمجھنا چاہیئے اور جو قتل ہوتا ہے وہ ریاست کے خلاف جرم ہوتا ہے اور اگر لوگ کسی ذاتی بنیاد پر آپس میں اس کا سمجھوتہ نہیں کرتے تو پھر فرق آئے گا۔‘‘
خواتین کی حالت زار سے متعلق قومی کمیشن کی سربراہ خاور ممتاز کہتی ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اس واقعہ کا نوٹس لینے سے تفتیش اور تحقیقات کے عمل میں تیزی آئے گی۔
’’ہم ہر دوسرے روز تیسرے روز کوئی قصہ سنتے ہیں لیکن یہ تو کچھ اتنا خوفناک تھا کہ اس سے تو ہم سب ہل گئے اور رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تو اس کو دیکھتے ہوئے ( وزیراعظم کا) اس کا نوٹس لینا ہے میرے خیال میں بہت اہم ہے۔ ہم اس سے امید رکھتے ہیں کہ اس کا جو قانون ہے اس کا پورے طریقے سے اطلاق ہو گا۔ جو بندہ پکڑا گیا ہے اور باقی جو چھ لوگ ہیں جن کے بارے 'ایف آئی آر' رجسٹر ہوئی ہے اور مقدمات درج ہوئے ان سب کے خلاف کارروائی ہو گی۔‘‘
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ میں صرف 2013ء میں ”غیرت کے نام پر“ 900 خواتین کے قتل کے واقعات قلمبند کیے گئے تھے۔ تاہم مبصرین اور حقوق نسواں کے سرگرم کارکنوں کا ماننا ہے کہ ایسے واقعات کی تعداد حقیقت میں کہیں زیادہ ہے۔