آنے والی حکومت کے لیے اقتصادی اصلاحات کے تحت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، توانائی پر سبسڈی کو بتدریج ختم کرنے، حکومتی اخراجات کو بہتر بنانے اور غیر فعال قومی اداروں کی نجکاری کرنے جیسے ’’انتہائی ضروری‘‘ اقدامات کرنا ہوں گے۔
اسلام آباد —
غیر حتمی نتائج کے تحت میاں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ن کو انتخابات میں واضح برتری حاصل ہوئی ہے اور وہ وفاق میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے لیے چیلنجز معیشت کی بحالی، توانائی کے بحران اور دہشت گردی پر قابو پانا ہے۔
سابق مشیر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نئی آنے والی حکومت کو ملک کو نا دھندہ ہونے سے بچانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضے کے لیے فوری رجوع کرنا ہوگا۔
’’30 جون تک (پاکستان کا زرمبادلہ) چار ارب ڈالر تک رہ جائے گے اور جولائی سے دسمبر تک دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر آئی ایم ایف کو دینا ہے تو زرمبادلہ کو بچانا بڑا چلینج ہے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ آنے والی حکومت کے لیے اقتصادی اصلاحات کے تحت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، توانائی پر سبسڈی کو بتدریج ختم کرنے، حکومتی اخراجات کو بہتر بنانے اور غیر فعال قومی اداروں کی نجکاری کرنے جیسے ’’انتہائی ضروری‘‘ اقدامات کرنا ہوں گے۔
سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار محمد مالک کے مطابق ملک میں بلدیاتی نظام کو متعارف کرنا بھی میاں نواز شریف کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
’’نواز شریف اور عمران خان نے الیکشن مہم کے دوران لوکل باڈی انتخابات کا وعدہ کیا تھا وہ ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ نظام آگیا تو جمہوری نظام درست راہ پر چل پڑے گا۔ پھر آپ کی قومی اسمبلی اپنا صحیح کردار ادا کرے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جماعت جو کہ اس انتخابات میں ایک بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے مسلم لیگ (ن) کی متوقع حکومت پر اس نظام کے لیے بھر پور دباؤ ڈالے۔
پی ایم ایل (این) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تمام جماعتوں کی رائے پر مبنی ایک قومی پالیسی مرتب کی جائے گی اور شدت پسندوں سے مذاکرات ملک کے آئین کے تحت کیے جائیں گے۔
پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی نظام سے متعلق تحقیقات کرنے والی غیرسرکاری تنظیم پلڈاٹ کی ڈائریکٹر آسیہ ریاض کا کہنا تھا۔
’’نواز شریف صاحب نے اپنی پہلی حکومتوں میں ہر ایک سے جھگڑا کیا جس میں فوج، عدلیہ اور میڈیا شامل ہیں مگر اب پاکستان میں کافی آگاہی ہے اور نجی ٹی وی چینلز موجود ہیں تو ان پر زیادہ چیک ہوگا۔‘‘
آسیہ کے بقول عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی نمایاں کامیابی کے بھی میاں نواز شریف کے رویے یا طرز حکومت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور تمام سیاسی قوتیں مل کر کام کریں گی۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی حکومت کے پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد انتخابات کے ذریعے دوسری سیاسی جماعت حکومت سنبھالنے جاری ہے اور تمام جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے مل کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
سابق مشیر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ نئی آنے والی حکومت کو ملک کو نا دھندہ ہونے سے بچانے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضے کے لیے فوری رجوع کرنا ہوگا۔
’’30 جون تک (پاکستان کا زرمبادلہ) چار ارب ڈالر تک رہ جائے گے اور جولائی سے دسمبر تک دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر آئی ایم ایف کو دینا ہے تو زرمبادلہ کو بچانا بڑا چلینج ہے‘‘۔
انہوں نے بتایا کہ آنے والی حکومت کے لیے اقتصادی اصلاحات کے تحت ٹیکس نیٹ کو بڑھانے، توانائی پر سبسڈی کو بتدریج ختم کرنے، حکومتی اخراجات کو بہتر بنانے اور غیر فعال قومی اداروں کی نجکاری کرنے جیسے ’’انتہائی ضروری‘‘ اقدامات کرنا ہوں گے۔
سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار محمد مالک کے مطابق ملک میں بلدیاتی نظام کو متعارف کرنا بھی میاں نواز شریف کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
’’نواز شریف اور عمران خان نے الیکشن مہم کے دوران لوکل باڈی انتخابات کا وعدہ کیا تھا وہ ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ نظام آگیا تو جمہوری نظام درست راہ پر چل پڑے گا۔ پھر آپ کی قومی اسمبلی اپنا صحیح کردار ادا کرے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی جماعت جو کہ اس انتخابات میں ایک بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے مسلم لیگ (ن) کی متوقع حکومت پر اس نظام کے لیے بھر پور دباؤ ڈالے۔
پی ایم ایل (این) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تمام جماعتوں کی رائے پر مبنی ایک قومی پالیسی مرتب کی جائے گی اور شدت پسندوں سے مذاکرات ملک کے آئین کے تحت کیے جائیں گے۔
پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی نظام سے متعلق تحقیقات کرنے والی غیرسرکاری تنظیم پلڈاٹ کی ڈائریکٹر آسیہ ریاض کا کہنا تھا۔
’’نواز شریف صاحب نے اپنی پہلی حکومتوں میں ہر ایک سے جھگڑا کیا جس میں فوج، عدلیہ اور میڈیا شامل ہیں مگر اب پاکستان میں کافی آگاہی ہے اور نجی ٹی وی چینلز موجود ہیں تو ان پر زیادہ چیک ہوگا۔‘‘
آسیہ کے بقول عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کی نمایاں کامیابی کے بھی میاں نواز شریف کے رویے یا طرز حکومت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور تمام سیاسی قوتیں مل کر کام کریں گی۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی حکومت کے پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد انتخابات کے ذریعے دوسری سیاسی جماعت حکومت سنبھالنے جاری ہے اور تمام جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے مل کر ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔