بلوچستان پولیس کو جدید آلات اور تربیت کی ضرورت ہے: حکام

فائل فوٹو

سی سی پی او کوئٹہ نے بتایا کہ دہشت گردی کے شکار دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے لیے کم سن بچوں کو استعمال کر رہے ہیں
پاکستان میں دہشت گردانہ واقعات کے تناظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس کی کارکردگی پر ایک عرصے سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔

جنوبی مغربی صوبہ بلوچستان نہ صرف دہشت گردی کا شکار چلا رہا ہے بلکہ یہاں فرقہ وارانہ تشدد کی کارروائیاں، علیحدگی پسند گروہوں کی سرگرمیاں اور اغوا برائے تاوان جیسے واقعات بھی آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں۔

مرکزی شہر کوئٹہ میں پولیس کے سربراہ عبدالرزاق چیمہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پولیس کو جدید خطوط پر تربیت اور دیگر ضروری آلات کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے صوبے میں منظم جرائم خصوصاً اغوا برائے تاوان کے سدباب کے لیے کئی اہم اقدامات کیے جن کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے۔

لیکن ان کا کہنا تھا کہ دیگر جرائم کی تحقیقات کے لیے بلوچستان پولیس کو فی الوقت جدید سہولتوں کی کمی کا سامنا ہے۔

’’معمول کے کام میں ہمیں وہ سہولیات ابھی تک میسر نہیں ہیں جو مغربی ممالک یا پنچاب کے علاوہ باقی جگہوں پر میسر ہیں۔ لیبارٹری کی کرائم سین لیبارٹری کی یا ایک فلی فنگشنل اچھی سٹینڈرڈ کی جیسے پنجاب میں فاراینزک لیب ایجنسی ہے اس طرح کی میسر نہیں ہے اگر وہ لیبارٹری یہاں قائم ہو گی اور فاراینزک سائنس ایجنسی موجود ہو گی جو فاراینزک سائنس کی لیب ہو گی جو سین پر جائے گی اور ثبوت اکٹھے کرنے میں ہماری مدد کر ے گی‘‘۔

عبدالرزاق چیمہ نے بتایا کہ صوبے سے گزشتہ سال اغوا ہونے والے اے این پی کے رہنما ارباب عبدالظاہر کاسی کے علاوہ تقریباً باقی تمام کیسز نمٹا لیے گئے ہیں اور اغوا برائے تاوان میں ملوث متعدد گروہوں کو پکڑ کر ان پر مقدمات بھی چلائے گئے ہیں۔

سی سی پی او کوئٹہ نے بتایا کہ دہشت گردی کے شکار دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے لیے کم سن بچوں کو استعمال کر رہے ہیں اور پولیس نے اس طرح توجہ دیتے ہوئے کئی کارروائیاں کیں۔

’’پچھلے دفعہ بھی وہ بچے گرفتار ہوئے تھے پھر ان کو جیل بھی بھیجا گیا اور پھر ہم نے دوبارہ وہ بچے پکڑے کچھ اور بچے پکڑے وہ بچوں کو مس گائیڈ کرتے ہیں۔ ان کو تھوڑے سے پیسے دیتے ہیں اور یہ کیتے ہیں کہ یہ چیز فلاں جگہ رکھ کر آ جاؤ اس کے ان کو پیسے ملتے ہیں اور وہ بچے کوئی ڈسپلن بچے نہیں ہوتے۔ گھروں میں ان کے جو دیکھا گیا ہے کہ وہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو یہ بچوں کا غلط استعمال ہے‘‘۔

عبدالرزاق چیمہ کا کہنا تھا کہ بچوں سے ایسی تخریبی کارروائیوں میں معاونت کی روک تھام کے لیے صرف پولیس کی کوششیں ہی کافی نہیں بلکہ ان کے بقول اس میں معاشرے کے تمام طبقات اور سماجی فلاحی اداروں کو بھرپور کاوشیں کرنا ہوں گی۔

انھوں نے بتایا کہ کوئٹہ سے گزشتہ چند ماہ میں 30 بچے لاپتہ ہوگئے تھے جن میں سے پولیس کے پاس صرف 20 کی رپورٹ درج تھی۔ ان کے بقول خاتون ڈی ایس پی شبانہ نے اس پر تمام تھانوں سے رابطہ کر کے اور ان کے تعاون سے 27 بچوں کو بازیاب کروا چکی ہیں۔