انسداد پولیو کی ٹیموں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر جان لیوا حملوں کی وجہ سے با رہا تعلطل کا شکار ہونے والی مہم کے نتائج اس وائرس سے متاثرہ کیسز میں اضافے کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے پولیو کے موذی مرض سے بچاؤ کی کوششیں اپنی جگہ لیکن رواں سال پولیو وائرس سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں دن بدن اضافہ ایک تشویشناک امر ہے۔
اس سال اب تک پولیو کے 21 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں 19 قبائلی علاقے شمالی وزیرستان جب کہ دو پشاور سے رپورٹ ہوئے۔
گزشتہ ایک برس سے ملک کے مختلف علاقوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر جان لیوا حملوں کی وجہ سے با رہا تعلطل کا شکار ہونے والی مہم کے نتائج اس وائرس سے متاثرہ کیسز میں اضافے کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین دینے کے قومی پروگرام کے اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر اعجاز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تاثر کو درست قرار دیا۔
’’یہ زیادہ کیسز وزیرستان سے ہیں وہاں سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے مہم ہی نہیں ہو رہی ہے۔۔۔۔ باقی پورے ملک میں دیکھیں جہاں مہم چل رہی ہے وہاں آپ کو اس طرح کیسز نہیں ملتے، کافی حد تک صورتحال قابو میں ہے۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے بھی گزشتہ ماہ سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے اور ویکسین پلانے کی ہفتہ وار مہم شروع کر رکھی ہے لیکن اس کا دائرہ کار فی الوقت مرکزی شہر پشاور کی یونین کونسلوں تک محدود ہے جسے حکام کے بقول آئندہ مہینوں میں بتدریج صوبے کے دیگر اضلاع تک بڑھایا جائے گا۔
نائجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت ’’ڈبلیو ایچ او‘‘ پشاور کو دنیا میں پولیو کا سب سے بڑا گڑھ قرار دے چکا ہے۔
اعجاز خان کہتے ہیں کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے حفاظتی ویکسین کے پروگرام کو تسلسل سے جاری رکھتے ہوئے کوششوں کو موثر بنایا جاسکتا ہے۔
’’بنیادی طور پر پولیو زیادہ اچھے طریقے سے تب کنٹرول ہو گا جب ہماری معمول کی ایمونائزیشن مضبوط ہوگی، اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو مزید بہتر کریں مزید مضبوط کریں تو پھر اس سے حالت اور زیادہ بہتر ہو جائے گی۔ چار پانچ منصوبے ابھی زیر غور ہیں ان پر آہستہ آہستہ عمل درآمد کیا جائے گا۔‘‘
پاکستان میں انسداد پولیو مہم کا باقاعدگی سے آغاز نوے کی دہائی میں ہوا جس کے بعد ملک سے اس موذی وائرس کے کیسز میں بتدریج کمی بھی دیکھنے میں آئی۔
سال 2012ء میں پولیو کے 58 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ مہم میں تعطل کی وجہ سے گزشتہ سال یہ تعداد 91 تک پہنچ گئی۔
اس سال اب تک پولیو کے 21 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں 19 قبائلی علاقے شمالی وزیرستان جب کہ دو پشاور سے رپورٹ ہوئے۔
گزشتہ ایک برس سے ملک کے مختلف علاقوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں پر جان لیوا حملوں کی وجہ سے با رہا تعلطل کا شکار ہونے والی مہم کے نتائج اس وائرس سے متاثرہ کیسز میں اضافے کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔
بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین دینے کے قومی پروگرام کے اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر اعجاز خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس تاثر کو درست قرار دیا۔
’’یہ زیادہ کیسز وزیرستان سے ہیں وہاں سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے مہم ہی نہیں ہو رہی ہے۔۔۔۔ باقی پورے ملک میں دیکھیں جہاں مہم چل رہی ہے وہاں آپ کو اس طرح کیسز نہیں ملتے، کافی حد تک صورتحال قابو میں ہے۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے بھی گزشتہ ماہ سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے اور ویکسین پلانے کی ہفتہ وار مہم شروع کر رکھی ہے لیکن اس کا دائرہ کار فی الوقت مرکزی شہر پشاور کی یونین کونسلوں تک محدود ہے جسے حکام کے بقول آئندہ مہینوں میں بتدریج صوبے کے دیگر اضلاع تک بڑھایا جائے گا۔
نائجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت ’’ڈبلیو ایچ او‘‘ پشاور کو دنیا میں پولیو کا سب سے بڑا گڑھ قرار دے چکا ہے۔
اعجاز خان کہتے ہیں کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے حفاظتی ویکسین کے پروگرام کو تسلسل سے جاری رکھتے ہوئے کوششوں کو موثر بنایا جاسکتا ہے۔
’’بنیادی طور پر پولیو زیادہ اچھے طریقے سے تب کنٹرول ہو گا جب ہماری معمول کی ایمونائزیشن مضبوط ہوگی، اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو مزید بہتر کریں مزید مضبوط کریں تو پھر اس سے حالت اور زیادہ بہتر ہو جائے گی۔ چار پانچ منصوبے ابھی زیر غور ہیں ان پر آہستہ آہستہ عمل درآمد کیا جائے گا۔‘‘
پاکستان میں انسداد پولیو مہم کا باقاعدگی سے آغاز نوے کی دہائی میں ہوا جس کے بعد ملک سے اس موذی وائرس کے کیسز میں بتدریج کمی بھی دیکھنے میں آئی۔
سال 2012ء میں پولیو کے 58 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ مہم میں تعطل کی وجہ سے گزشتہ سال یہ تعداد 91 تک پہنچ گئی۔