عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار الیاس درے نے کہا کہ انسداد پولیو آسان کام نہیں اور اس کے لیے زیادہ موثر اور مربوط کوششوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام لوگوں کی اس میں شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔
اسلام آباد —
پاکستان میں انسداد پولیو مہم کے رضا کاروں پر ہونے والے ہلاکت خیز حملوں پر ملکی و بین الاقوامی ماہرین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے انتہائی مضر ہیں۔
پولیو سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار الیاس درے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انسداد پولیو آسان کام نہیں اور اس کے لیے زیادہ موثر اور مربوط کوششوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام لوگوں کی اس میں شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔
’’ سب کو مل کر سخت محنت کرنا ہوگی کہ کس طرح سکیورٹی کو زیادہ فعال بنایا جاسکے، سکیورٹی کو بڑھانے کے علاوہ جو تصورات اور تاثر معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کو تبدیل کرنے اور سول سوسائٹی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی اس میں شرکت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
رواں ہفتے ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے انسداد پولیو کی ٹیم میں شامل دو خواتین رضا کاروں سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے جب کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت کے لیے جانے والے پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر بم حملے سے چھ اہلکاروں سمیت سات افراد مارے گئے۔
ان واقعات کی وجہ سے مختلف علاقوں میں انسداد پولیو کی مہم ماضی کی طرح ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوئی۔
پولیو کے خاتمے کے لیے وزیراعظم کی معاون خصوصی عائشہ رضا فاروق نے ان حملوں کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت انسداد پولیو کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔
’’پولیو کا خاتمہ ہمارے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے، ہم سارے صوبوں کے ساتھ مل کر سکیورٹی کی نئی حکمت عملی بھی بنا رہے ہیں۔۔ مختلف مقامات پر مستقل بنیادوں پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے مراکز بنائیں جائیں گے تاکہ سفر کرنے والے بچوں کو بھی قطرے پلائے جائیں۔‘‘
عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ ملک کے تین مختلف حصوں یعنی قبائلی علاقوں، پشاور اور کراچی میں پولیو وائرس خطرناک حد تک موجود ہے اور اسی لیے حکومت ان تینوں علاقوں پر خاص توجہ دے رہی ہے۔
ملک میں دسمبر 2012ء سے پولیو سے بچاؤ کی مہم میں شامل ٹیموں اور ان کے حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر شدت پسندوں کے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے ایسے واقعات میں خواتین رضا کاروں اور پولیس اہلکاروں سمیت لگ بھگ تین درجن افراد مارے جا چکے ہیں۔
ان قیمتی جانوں کا ضیاع اپنی جگہ لیکن ایسے واقعات سے بار بار تعلطل کا شکار ہونے والی مہم کی وجہ سے پاکستان میں پولیو کا وائرس ایک بار پھر زور پکڑ چکا ہے۔
2012ء میں پولیو سے متاثرہ 58 کیسز رپورٹ ہوئے تھے لیکن 2013ء میں نہ صرف یہ تعداد 91 تک جا پہنچی بلکہ عالمی ادارہ صحت کے بقول پشاور پولیو وائرس کا ایک بڑا گڑھ بن چکا ہے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آنے والے پولیو کیسز کا تعلق پشاور میں پائے جانے والے وائرس سے ہی جوڑا جانے لگا ہے۔
پولیو سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار الیاس درے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انسداد پولیو آسان کام نہیں اور اس کے لیے زیادہ موثر اور مربوط کوششوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام لوگوں کی اس میں شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔
’’ سب کو مل کر سخت محنت کرنا ہوگی کہ کس طرح سکیورٹی کو زیادہ فعال بنایا جاسکے، سکیورٹی کو بڑھانے کے علاوہ جو تصورات اور تاثر معاشرے میں پایا جاتا ہے اس کو تبدیل کرنے اور سول سوسائٹی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی اس میں شرکت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
نائیجیریا اور افغانستان کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کردینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
رواں ہفتے ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے انسداد پولیو کی ٹیم میں شامل دو خواتین رضا کاروں سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے جب کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چارسدہ میں انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت کے لیے جانے والے پولیس اہلکاروں کی گاڑی پر بم حملے سے چھ اہلکاروں سمیت سات افراد مارے گئے۔
ان واقعات کی وجہ سے مختلف علاقوں میں انسداد پولیو کی مہم ماضی کی طرح ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوئی۔
پولیو کے خاتمے کے لیے وزیراعظم کی معاون خصوصی عائشہ رضا فاروق نے ان حملوں کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت انسداد پولیو کے لیے مزید موثر اقدامات کرنے میں مصروف ہے۔
’’پولیو کا خاتمہ ہمارے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے، ہم سارے صوبوں کے ساتھ مل کر سکیورٹی کی نئی حکمت عملی بھی بنا رہے ہیں۔۔ مختلف مقامات پر مستقل بنیادوں پر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے مراکز بنائیں جائیں گے تاکہ سفر کرنے والے بچوں کو بھی قطرے پلائے جائیں۔‘‘
عائشہ رضا کا کہنا تھا کہ ملک کے تین مختلف حصوں یعنی قبائلی علاقوں، پشاور اور کراچی میں پولیو وائرس خطرناک حد تک موجود ہے اور اسی لیے حکومت ان تینوں علاقوں پر خاص توجہ دے رہی ہے۔
ملک میں دسمبر 2012ء سے پولیو سے بچاؤ کی مہم میں شامل ٹیموں اور ان کے حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر شدت پسندوں کے حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے ایسے واقعات میں خواتین رضا کاروں اور پولیس اہلکاروں سمیت لگ بھگ تین درجن افراد مارے جا چکے ہیں۔
ان قیمتی جانوں کا ضیاع اپنی جگہ لیکن ایسے واقعات سے بار بار تعلطل کا شکار ہونے والی مہم کی وجہ سے پاکستان میں پولیو کا وائرس ایک بار پھر زور پکڑ چکا ہے۔
2012ء میں پولیو سے متاثرہ 58 کیسز رپورٹ ہوئے تھے لیکن 2013ء میں نہ صرف یہ تعداد 91 تک جا پہنچی بلکہ عالمی ادارہ صحت کے بقول پشاور پولیو وائرس کا ایک بڑا گڑھ بن چکا ہے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آنے والے پولیو کیسز کا تعلق پشاور میں پائے جانے والے وائرس سے ہی جوڑا جانے لگا ہے۔