پاکستان میں حال ہی میں پولیو سے ایک متاثر ہونے والے بچے کا ایک نیا کیس سامنے آنے کے باوجود ملک میں انسداد پولیو کے پروگرام سے وابستہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وائرس سے بچاؤ کی ملک گیر مہم شروع کی جائے گی۔
حال ہی میں بلوچستان کے سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ میں ایک بچے میں پولیو کا کیس سامنے آیا ہے، جو رواں سال ملک میں سامنے آنے والا پولیو کا تیسرا کیس ہے۔
انسداد پولیو کے قومی مرکز کے معاون ڈاکٹر رانا صفدر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان نے پولیو کے خاتمے کے لیے مؤثر مہم شروع کر رکھی ہے اور گزشتہ تین سالوں کے دوران سامنے آنے والے پولیو کیسوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2014ء میں ملک بھر میں 306، 2015ء میں 54 اور 2016ء میں پولیو وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد کم ہو کر 20 ہوگئی تھی جب کہ 2017ء میں اب تک صرف تین ایسے کیس سامنے آئے ہیں۔
ڈاکٹر صفدر نے کہا کہ سوائے کوئٹہ کے ملک کے دیگر علاقوں سے حاصل کیے گئے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی نہیں پائی گئی ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے خطے میں ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی موجودگی اب بھی ایک چیلنج ہے۔
بقول اُن کے، ’’اس وقت جو ہماری انسداد پولیو کی جنگ ہے وہ کوئٹہ بلاک میں جاری ہے جہاں بدقسمتی سے پچھلے کچھ مہینوں سے ہمیں لگاتار وائرس ماحولیاتی نمونوں میں مل رہا تھا اس میں ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج سرحد کی دوسری طرف افغانستان میں سیکورٹی کی صورت حال کی وجہ سے ہے۔۔۔وہاں (افغانستان) کا (انسداد پولیو) پروگرام اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بچوں تک باقاعدگی سے نہیں پہنچ رہا ہے۔‘‘
ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے کہا کہ اس صورت حال کا تدارک دونوں پڑوسی ممالک (پاکستان اور افغانستان) کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئٹہ اور سرحد پار ہلمند اور قندہار کے علاقوں میں دونوں ملک انسداد پولیو کی کوششوں کو مربوط کر سکیں۔