پولیو ٹیموں پر مسلسل تیسرے روز بھی حملے، مزید دو ہلاکتیں

(فائل فوٹو)

پشاور اور چارسدہ کے علاوہ بٹگرام میں انسداد پولیو ٹیم کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک خاتون اہلکار سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے جب کہ پشاور میں ایک رضاکار فائرنگ سے شدید زخمی ہو گیا۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور اور اس کے قریبی اضلاع چارسدہ اور نوشہرہ میں بدھ کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر نا معلوم افراد کی فائرنگ میں ایک خاتون سمیت دو افراد ہلاک اور ایک رضا کار شدید زخمی ہو گیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ نے ان حملوں کے بعد ملک بھر میں اپنے ’فیلڈ اسٹاف‘ کو مزید احکامات تک واپس بلا لیا ہے۔

پولیو ٹیموں پر حملوں کے واقعات کے خلاف بدھ کو قومی اسمبلی میں بھی ایک متفقہ مذمتی قرارداد منظور کی گئی جس میں وفاقی و صوبائی حکومتوں سے انسداد پولیو کی مہم میں شامل اہلکاروں اور رضا کاروں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انسداد پولیو کی ٹیموں کو بدھ کو پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ میں نشانہ بنایا گیا۔ چارسدہ میں پولیو ٹیم کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک خاتون اہلکار سمیت دو افراد ہلاک ہو گئے۔

وزیراعظم سیکرٹریٹ میں قائم انسداد پولیو سیل کی سربراہ شہناز وزیر علی نے اس واقعہ کے بارے میں بتایا کہ’’ ذکیہ بی بی لیڈی ہیلتھ سپروائزر کو چارسدہ میں گولی کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔ ان کے ساتھ ایک ڈرائیور بھی ہلاک ہوا ہے۔‘‘

پولیس کے مطابق پشاور کے علاقے شیرو جنگی میں موٹر سائیکل پر سوار نا معلوم مسلح افراد نے انسداد پولیو کی ٹیم پر فائرنگ کی جس سے ایک رضا کار شدید زخمی ہو گیا جسے فوری طور پر پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔

پشاور کے ضلعی رابطہ افسر ’ڈی سی او‘ پشاور حبیب اللہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ رضاکار کے سر میں گولی لگی اور اس کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔

نوشہرہ میں پولیو ٹیم پر حملے میں خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

دریں اثناء انسداد پولیو کے رضا کاروں پر حملوں کے خلاف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاوہ صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں اس مہم سے وابستہ افراد نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے جن میں رضاکاروں کو تحفظ فراہم کرنے اور اپنے ساتھیوں کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی اور انسداد پولیو سیل کی سربراہ شہناز وزیرعلی نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے پولیو ٹیموں میں شامل اہلکاروں اور رضا کاروں کو تحفظ فراہم کے لیے خصوصی احکامات جاری کیے ہیں۔

’’انسداد پولیو مہم میں سیاسی جماعتیں اور علما کرام متحرک ہو چکے تھے۔۔۔ لگتا یہ ہے کہ پاکستان کے وجود، پاکستان کی ریاست اور عوام کے خلاف جو بھی گروپ ہیں وہ اپنا ایجنڈا اس طریقے سے پورا کر رہے ہیں کہ خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘‘


Your browser doesn’t support HTML5

پولیو ٹیموں پر حملوں کی مذمت


پاکستان میں رواں سال کی آخری تین روزہ مہم کے دوران منگل کو پولیو ٹیموں پر فائرنگ میں پانچ خواتین رضا کار ہلاک ہو گئی تھیں جن میں سے چار کو کراچی کے مختلف علاقوں جب کہ ایک کو پشاور میں نا معلوم افراد نے فائرنگ کر کے موت کی نیند سلا دیا تھا۔

گزشتہ سال ملک میں پولیو وائرس سے 198 بچے متاثر ہوئے تھے، مگر رواں سال اب تک 56 بچوں میں اس کی تصدیق ہوئی ہے لیکن اس مرض سے بچاؤ کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انسداد پولیو کی ٹیموں پر مہلک حملے پاکستان سے اس مرض کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

دریں اثناء اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم ’پلڈاٹ‘ کے زیر اہتمام ملک سے ’پولیو کے خاتمے کے خلاف ہنگامی صورت حال‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں حکمران پیپلز پارٹی سمیت تمام لگ بھگ 15 سیاسی جماعتوں کے عہدیداروں نے شرکت کی۔ بعد ازاں ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ تمام سیاسی جماعتیں پولیو کے خاتمے کے منصوبے کو آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔

افغانستان اور نائیجیریا کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں اب بھی انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی بیماری پولیو کا وائرس موجود ہے۔