عالمی سطح پر آئندہ سال کے اواخر تک پولیو وائرس پر قابو پانے اور 2018ء تک اس کے مکمل خاتمے کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ماہرین صحت کے بقول 5.5 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔
اسلام آباد —
عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں نے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ مختلف مسائل سے دوچار انسداد پولیو مہم اگر تواتر سے جاری رہی تو پاکستان میں پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔
افغانستان اور کینیا کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والے پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر الیاس درے نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سال اور حالیہ مہینوں میں پاکستان میں انسداد پولیو مہم کو سلامتی کے خدشات سمیت متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود اس مہم میں تسلسل سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
’’سلامتی سے متعلق ہمارے خدشات ہیں لیکن مقامی آبادی اور مذہبی رہنماؤں سے مفصل بات چیت کے ذریعے اس پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ مقامی آبادی کی طرف سے اس مہم کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔۔۔ اور معمول کی مہم کو مزید فعال بنا کر بالآخر پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران انسداد پولیو مہم سے وابستہ کارکنوں پر شدت پسندوں کے حملوں میں خواتین رضاکاروں سمیت درجن سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان واقعات کے بعد ملک میں پولیو سے بچاؤ کی مہم عارضی طور پر معطل بھی رہی۔
عالمی سطح پر آئندہ سال کے اواخر تک پولیو وائرس پر قابو پانے اور 2018ء تک اس کے مکمل خاتمے کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ماہرین صحت کے بقول 5.5 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔
1950ء کی دہائی میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں پولیو کے انسداد کی مہم شروع ہوئی اور 1988ء میں اس کا دائرہ دنیا کے دیگر تمام ملکوں تک بھی پھیلا دیا گیا۔
پاکستان میں اس مہم کا باقاعدہ آغاز 1994 سے ہوا اور دنیا بھر کی طرح یہاں بھی ماضی کی نسبت صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہے۔
سال 2011ء میں دنیا بھر میں 650 پولیو کیسز سامنے آئے تھے جب کہ گزشتہ برس ایسے کیسز کی تعداد 223 تھی۔
اسی طرح پاکستان میں 2011ء کے 198 کیسز کے مقابلے میں گزشتہ سال پولیو کے صرف 58 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ رواں سال اب تک پولیو وائرس سے متاثرہ پانچ کیسز سامنے آچکے ہیں۔
افغانستان اور کینیا کے علاوہ پاکستان دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والے پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح سے قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے پاکستان میں ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر الیاس درے نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سال اور حالیہ مہینوں میں پاکستان میں انسداد پولیو مہم کو سلامتی کے خدشات سمیت متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود اس مہم میں تسلسل سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
’’سلامتی سے متعلق ہمارے خدشات ہیں لیکن مقامی آبادی اور مذہبی رہنماؤں سے مفصل بات چیت کے ذریعے اس پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ مقامی آبادی کی طرف سے اس مہم کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔۔۔ اور معمول کی مہم کو مزید فعال بنا کر بالآخر پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران انسداد پولیو مہم سے وابستہ کارکنوں پر شدت پسندوں کے حملوں میں خواتین رضاکاروں سمیت درجن سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ ان واقعات کے بعد ملک میں پولیو سے بچاؤ کی مہم عارضی طور پر معطل بھی رہی۔
عالمی سطح پر آئندہ سال کے اواخر تک پولیو وائرس پر قابو پانے اور 2018ء تک اس کے مکمل خاتمے کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے لیکن اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ماہرین صحت کے بقول 5.5 ارب ڈالر کی رقم درکار ہوگی۔
1950ء کی دہائی میں دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں پولیو کے انسداد کی مہم شروع ہوئی اور 1988ء میں اس کا دائرہ دنیا کے دیگر تمام ملکوں تک بھی پھیلا دیا گیا۔
پاکستان میں اس مہم کا باقاعدہ آغاز 1994 سے ہوا اور دنیا بھر کی طرح یہاں بھی ماضی کی نسبت صورتحال بہتری کی طرف گامزن ہے۔
سال 2011ء میں دنیا بھر میں 650 پولیو کیسز سامنے آئے تھے جب کہ گزشتہ برس ایسے کیسز کی تعداد 223 تھی۔
اسی طرح پاکستان میں 2011ء کے 198 کیسز کے مقابلے میں گزشتہ سال پولیو کے صرف 58 کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ رواں سال اب تک پولیو وائرس سے متاثرہ پانچ کیسز سامنے آچکے ہیں۔