پولیس حکام کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے فہمیدہ یاسمین پر اُس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنے گھر سے پیدل نکلی ہی تھیں۔
پشاور —
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع بنوں میں پیر کو نامعلوم مسلح افراد نے انسداد پولیو ٹیم سے وابستہ ایک خاتون کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
فہمیدہ یاسمین نامی خاتون انسداد پولیو ٹیم کے ساتھ رضا کار کے طور پر کام کر رہی تھیں۔
پولیس حکام کے مطابق شہر کے نواحی علاقے ابو طلحہ محلے میں موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے فہمیدہ یاسمین پر اُس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنے گھر سے پیدل نکلی ہی تھیں۔
بنوں پولیس کے انسپکٹر جلیل خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والی خاتون کے بیٹے نے کہا ہے کہ اُن کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں تھی اور اُن کی والدہ کو بظاہر انسداد پولیو ٹیم کا حصہ بننے پر ہی نشانہ بنایا گیا۔
’’یہ خاتون 2013ء سے انسداد پولیو ٹیم کے ساتھ کام کر رہی تھیں اور اُنھوں نے 26 مارچ 2014ء کو بھی انسداد پولیو مہم میں حصہ لیا تھا۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں اس سے قبل بھی انسداد پولیو کی مہم میں شامل رضا کاروں اور اُن کی حفاظت پر معمور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ایسے حملوں کے بعد کئی علاقوں میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی کوششیں متاثر بھی ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ 2012ء میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 58 تک ہو گئی تھی لیکن 2013ء میں اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا اور پولیو سے بچوں کی تعداد 91 ہو گئی۔ رواں برس اب تک 36 کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے۔
پاکستان، نائیجریا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والا پولیو وائرس اب بھی موجود ہے۔ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت پشاور کو دنیا میں پولیو کا سب سے بڑا گڑھ بھی قرار دے چکا ہے۔
تاہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو اپاہج کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
فہمیدہ یاسمین نامی خاتون انسداد پولیو ٹیم کے ساتھ رضا کار کے طور پر کام کر رہی تھیں۔
پولیس حکام کے مطابق شہر کے نواحی علاقے ابو طلحہ محلے میں موٹر سائیکل پر سوار مسلح افراد نے فہمیدہ یاسمین پر اُس وقت فائرنگ کی جب وہ اپنے گھر سے پیدل نکلی ہی تھیں۔
بنوں پولیس کے انسپکٹر جلیل خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والی خاتون کے بیٹے نے کہا ہے کہ اُن کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں تھی اور اُن کی والدہ کو بظاہر انسداد پولیو ٹیم کا حصہ بننے پر ہی نشانہ بنایا گیا۔
’’یہ خاتون 2013ء سے انسداد پولیو ٹیم کے ساتھ کام کر رہی تھیں اور اُنھوں نے 26 مارچ 2014ء کو بھی انسداد پولیو مہم میں حصہ لیا تھا۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں اس سے قبل بھی انسداد پولیو کی مہم میں شامل رضا کاروں اور اُن کی حفاظت پر معمور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ایسے حملوں کے بعد کئی علاقوں میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی کوششیں متاثر بھی ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان، نائیجریا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والا پولیو وائرس اب بھی موجود ہے۔ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت پشاور کو دنیا میں پولیو کا سب سے بڑا گڑھ بھی قرار دے چکا ہے۔
تاہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو اپاہج کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔