پاکستان میں اتوار کو سیاسی ماحول میں خوب گہما گہمی دیکھی گئی اور مختلف سیاسی جماعتوں نے ملک کے مختلف حصوں میں اپنی عوامی طاقت کے مظاہرے کے لیے جلسوں کا اہتمام کیا۔
حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی میں پنڈال سجایا تو پاکستان تحریک انصاف نے لاہور میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا۔
اسی طرح چند سالوں تک معطل رہنے کے بعد حال ہی میں دوبارہ منظم ہونے والی متحدہ مجلس عمل نے مردان میں جلسہ کیا۔
قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے صوابی تو قومی وطن پارٹی نے دیر بالا میں جلسے منعقد کیے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے بھی انتخابی مہم ہفتہ کو شروع کر دی تھی۔
ملک کا سیاسی ماحول تو حالیہ برسوں سے گرم ہی چلا آ رہا ہے لیکن رواں سال ہونے والے عام انتخابات کا وقت جیسے جیسے قریب آ رہا ہے سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا جا رہا ہے جس میں ہر جماعت اپنے مخالفین پر الزام تراشی اور انگشت نمائی کرنے میں شدومد سے مصروف دکھائی دیتی ہے۔
غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل سیاسی گہما گہمی میں شدت فطری بات ہے لیکن ملک میں پنپنے والی جمہوریت کے تناظر میں جس سیاسی بالغ نظری کی توقع کی جا رہی تھی وہ دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
علم سیاسیات کے ماہر ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ معاشرے میں افہام و تفہیم اور گفت و شنید کی روایت کو سیاسی رہنماؤں نے پروان چڑھانا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی جلسوں میں جو انداز اپنایا جا رہا ہے وہ کسی مہذب سیاسی کلچر کی عکاسی نہیں کرتا۔
"جو الزام تراشیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے یہ درست نہیں ہے اور بعض لوگ تو اس سے محظوظ بھی ہو رہے ہیں کہ وہ باتیں جو بچے نہیں کرتے وہ سیاسی جلسوں میں ہو رہی ہیں تو اس سے مخالف فریقین کو سننے اور اپنا نقطہ نظر بتانے کا کلچر فروغ نہیں پائے گا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو ملک میں جمہوری قدریں متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا اور سیاسی قائدین کو چاہیے کہ وہ تحمل و برداشت کا رویہ پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں اور عوام کی سیاسی تربیت کریں۔