پاکستان کی بڑی سیاسی طاقتوں ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتوں کے بنیادی نظریات اور فوج سے تعلقات میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ اس تبدیلی کا آغاز گزشتہ ایک عشرے کے دوران نہایت واضح ہوتا نظر آتا ہے۔ اس بات کے ثبوت وہ واقعات اور ان پر سیاسی جماعتوں کے رد عمل و اقدامات ہیں جو اس مدت میں رونما ہوئے۔
آیئے دلچسپی کی غرض سے ذیل میں باری باری مختلف سیاسی جماعتوں اور واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے نظریات میں تبدیلی
سپریم کورٹ میں میمو گیٹ اسکینڈل کے خلاف جس طرح نواز شریف نے صدرزرداری کے ساتھ ساتھ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو فریق بنایااور جمعرات کو سماعت کے دوران خود دلائل دینے سپریم کورٹ پہنچے، اس عمل سے یہ تاثیر مزید تقویت پکڑ گیا ہے کہ مسلم لیگ ن عسکری قیادت کے سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔
سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن ہمیشہ سے اس پوزیشن پرنہیں تھی بلکہ اس کے قائد میاں محمد نواز شریف کے فوج کے ساتھ انتہائی گہرے مراسم تھے جس کی مثال یہ ہے کہ وہ سابق فوجی آمر جنرل ضیا ء الحق کے دور میں اہم عہدوں پر فائز رہے یہاں تک کہ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور 1988 میں جونیجو حکومت کی برطرفی کے باوجود نواز شریف نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اقتدار میں رہے ۔بعد ازاں اسی سال ہونے والے انتخابات میں وہ دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین انہیں ضیاء الحق کے دیرینہ ساتھیوں میں شمار کرتے ہیں ۔
جنرل ضیاء کی طیارہ پھٹنے سے ہونے والی ہلاکت کے بعد نوازشریف نے 1990 میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے فتح پاکر وزیر اعظم کی نشست سنبھالی لیکن آئینی مدت پوری کرنے سے قبل ہی اس وقت کے صدر نے ان کی حکومت برطرف کر دی ۔ 1996 میں وہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیراعظم بنے لیکن 1999 میں پرویز مشرف نے ان کی حکومت تحلیل کردی۔
یہ مسلم لیگ ن کے بنیادی نظریات کا ”ٹرننگ پوائنٹ “ثابت ہوا ۔اس کے بعد نواز شریف فوج کی سیاست میں مداخلت کے مخالف ہوگئے۔ موجودہ دور حکومت میں 2 مئی کو اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ ہو یا میمو اسکینڈل، نواز شریف کا فوج میں احتساب سے متعلق سخت رد عمل سامنے آیا اور میمو گیٹ سکینڈل میں انہوں نے اس کے خلاف عدالت میں دلائل دیے ۔
پیپلزپارٹی کے نظریات میں تبدیلی
پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین وصدر آصف علی زرداری ۔۔اور اسی جماعت سے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت سے فوج کے تعلقات انتہائی مثالی قرار دیئے جا رہے ہیں، جس پر اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار بھی حیران ہیں ۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کرسوال کر ڈالاکہ بتایا جائے کہ صدر آصف علی زرداری اور اشفاق پرویز کیانی کے درمیان روز روز کی ملاقاتوں میں کیا ہو رہا ہے ؟ اس کے علاوہ وزیراعظم اور جنرل کیانی کے درمیان بھی اکثرخیر سگالی کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے ۔
جائزہ لیں توپیپلزپارٹی بھی اس پوزیشن پر نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے ابتداء میں فوج کے ساتھ انتہائی شاندار تعلقات رہے ، 1958 سے 1966 تک ذوالفقار علی بھٹو سابق آمر ایوب خان کی کابینہ میں تجارت اور خارجہ سمیت اہم وزارتوں پر مامور رہے لیکن 1967 میں انہوں نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تو فوج اور پیپلزپارٹی میں ٹھن گئی۔
سنہ1970 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے سابق مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل کی۔ بعدازاں وہ ملک کے وزیراعظم اورصدر کے عہدے پر بھی فائز رہے ۔1977 میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو ذوالفقار علی بھٹو کو جیل بھیج دیا گیا اور 1979 میں انہیں پھانسی دے دی گئی ۔
اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں تھامی لیکن اس دور میں بھی فوج کے ساتھ کوئی مثالی تعلقات نہ رہے ۔بے نظیر بھٹو 1988 تا1990 اور 1993 سے 1996 تک دوبار وہ وزیراعظم بنیں لیکن پانچ سالہ مدت پوری نہ کر سکیں ۔
سنہ 1999 میں پرویز مشرف کا دور حکومت شروع ہوتے ہی ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک نقطے پر متفق نظر آئیں جس کا اظہار 2006 میں دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کی ایک شق میں کیا تھا کہ آئندہ خفیہ اداروں کے سیاسی شعبے میں فوج کے کردار کا خاتمہ کیا جائے گا ۔
حالیہ دور حکومت میں پارٹی کے شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری نے مفاہمت کی پالیسی اپنائی اور بظاہر ان کے فوج سے تعلقات ذوالفقار علی بھٹواور بے نظیر بھٹو کے ادوار سے کافی بہتر دکھائی دے رہے ہیں ۔
متحدہ قومی موومنٹ کے نظریات میں تبدیلی
1978 میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی جو ایک سال بعد پہلے مہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ بن گئی ۔ 1992ء میں کراچی میں فوجی آپریشنز کے بعد اس جماعت کے فوج سے تعلقات انتہائی خراب ہوئے لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں 2002 کے انتخابات کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر فوج کے قریب ہوئی اور ق لیگ کے ساتھ حکومتی اتحادی بن گئی اور آج تک اس کے فوج کے ساتھ تعلقات بہت بہتر دکھائی دے رہے ہیں ۔
متحدہ مجلس عمل کے تعلقات میں تبدیلی
متحدہ مجلس عمل پانچ مذہبی جماعتوں مشتمل تھی جن میں جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام ، تحریک جعفریہ پاکستان ، جماعت الحدیث اورجمعیت علماء پاکستان شامل تھی۔ اس کا قیام 2000ء میں عمل میں آیا تھا۔ ایم ایم اے پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے 2002ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں حکومت کی اتحادی بنی تاہم اس وقت کے صدر اور جنرل پرویز مشرف کے دو عہدوں پراس کے فوجی سربراہ سے سخت اختلافات پید اہوئے ۔
یہی نہیں بلکہ اکبر بگٹی قتل ، اسمبلی میں حقوق نسواں بل ، باجوڑ اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشنز پر بھی پرویز مشرف سے مذہبی جماعتیں متفق نہ ہو سکیں ۔پھر 2008 کے انتخابات میں ایم ایم اے کا شیرازہ بکھر گیا جن میں بعض مشرف کے ساتھ اور بعض ان کے خلاف ہو گئیں ۔
تحریک انصاف کے نظریات میں تبدیلی
عمران خان پاکستان تحریک انصاف کے اسٹیج سے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بننے پر پرویز مشرف اور صدر آصف علی زرداری کو ہمیشہ ہدف تنقید بناتے رہے ہیں لیکن گزشتہ دو ماہ سے ان کی مقبولیت میں اچانک تیزی آرہی ہے جس پر بعض ناقدین کا خیال ہے کہ شاہد اب فوج ایک اور جماعت بنانے جا رہی ہے تاہم اس حوالے سے کوئی بھی ٹھوس ثبوت تاحال مہیا نہ کر سکا ہے ۔
پاکستان کی بڑی سیاسی طاقتوں ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتوں کے بنیادی نظریات اور فوج سے تعلقات میں تبدیلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ اس تبدیلی کا آغاز گزشتہ ایک عشرے کے دوران نہایت واضح ہوتا نظر آتا ہے۔ اس بات کے ثبوت وہ واقعات اور ان پر سیاسی جماعتوں کے رد عمل و اقدامات ہیں جو اس مدت میں رونما ہوئے۔