پاکستان میں سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے رابطوں اور مذاکرات میں ایک مرتبہ پھر تیزی آئی ہے۔
پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو تیسرے روز بھی جاری رہا جب کہ وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت مختلف پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس بھی ہوا۔
اُدھر ملک کے سابق صدر آصف علی زرداری بھی بدھ کی شب اسلام آباد پہنچے جہاں اُنھوں نے پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں کے ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں موجودہ سیاسی کشیدگی کے حل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
حزب مخالف کی جماعت مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ بات چیت ہی سے اس مسئلے کا حل ممکن ہے۔
’’ڈاکٹر قادری سے عمران خان سے (بات چیت کے لیے) آپ نے سیاسی جرگہ بھیجوایا ہے، کیوں کہ اگر ہم نریندرمودی سے بات کر سکتے ہیں، ہم (طالبان) یعنی ٹی ٹی پی سے بات کر سکتے ہیں جو لوگ دو تین سو گز کے فاصلے پر ہیں، ان سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اس بحران میں فیصلے پارلیمان نے کیے ہیں، فیصلے سیاست دانوں نے کیے ہیں نہ فوج کی مداخلت ہوئی نہ غیر ملکی طاقتو ں کی مداخلت ہوئی۔‘‘
وفاقی وزیر احسن اقبال نے بھی دھرنا دینے والی جماعتوں خاص طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کے علاوہ اُن کے تمام مطالبات مان لیے گئے ہیں، اس لیے اب اُن کے بقول ’ضد‘ کو چھوڑ پر مذاکرات کی راہ اختیار کی جانی چاہیئے۔
’’ہم خود اصلاحات چاہتے ہیں ہمارا منشور اصلاحات کا ہے تو آئیے اس پر تعمیری طریقے سےآگے پیش رفت کریں لیکن اگر آپ بھی کہتے ہیں استعفیٰ استعفیٰ کھیلنا ہے تو یہ استعفے کے معاملے پر کسی صورت بھی بات نہیں ہو سکتی، کیوں کہ اس پارلیمان نے اسے مسترد کر دیا ہے، پھر آپ ضد کی سیاست کر رہے ہیں، ضد سے پیچھے ہٹنا پڑے گا، انا سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔‘‘
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی سربراہی میں ایک سیاسی جرگہ مسلسل متحرک ہے جس نے جمعرات کی صبح وزیراعظم سے بھی ملاقات کی۔
حالیہ سیاسی رابطوں کے بعد سراج الحق اور جرگے میں شامل دیگر ممبران یہ کہہ چکے ہیں جلد اچھی خبر سننے کو مل سکتی ہے تاہم اس کی مزید وضاحت نہیں کی گئی۔
پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جمعہ کی صبح بھی ہو گا، جس میں موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ممکنہ حکمت عملی کی تیاری سے متعلق بحث جاری رہے گی۔