پاکستان میں حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہونے کی وجہ سے مبصرین کے مطابق سیاسی کشیدگی کے فوری حل کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
ایک ماہ ہو چلا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔
حکومت اور پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتیں اس مطالبے کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہیں جب کہ سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے دھرنوں کے قائدین سے مذاکرات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
لیکن جمعہ کو دیر گئے اور پھر ہفتے کو احتجاجی جماعتوں کے متعدد کارکنوں کو پولیس نے یہ کہہ کر حراست میں لیا کہ یہ لوگ کار سرکار میں مداخلت اور دیگر غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہیں۔
ان گرفتاریوں کے بعد تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے حکومت اور سیاسی جماعتوں کی مذاکراتی ٹیموں سے بات چیت ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
تاہم اتوار کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر سیاسی کارکنوں کو رہا کر دیا گیا۔
تجزیہ کار پروفیسر سجاد نصیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان گرفتاریوں کے سلسلے کے بعد دونوں جانب اب صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ یہ سیاسی کشیدگی پرتشدد صورت اختیار کر سکتی ہے۔
" کسی کے پاس صلاحیت نظر نہیں آرہی ہے نہ سپریم کورٹ تیار ہے اور نہ فوج تیار ہے اور جو پولیس ہے اس کے اندر کافی بددلی ہے اور سول بیوروکریسی اور پولیس کے اند ر بیگانیگی کا حساس بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے جو مدد حکومت کو چاہیے ہوتی ہے وہ بھی شاید ان کو میسر نہ ہو، تو میرے خیال میں یہ صورت حال تشدد کی طرف جاتی نظر آتی ہے"۔
وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی کے بھی غیر معمولی انتظامات دیکھنے میں آرہے ہیں اور خاص طور پر پارلیمان جس کے سامنے احتجاجی جماعتوں کے کارکن دھرنا دیے بیٹھے ہیں، اس کی طرف سے جانے والے راستوں کے علاوہ اسلام آباد کے داخلی و خارجی راستوں پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔