حکمران پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی مخلوط حکومت کو بچانے کے لئے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کے درمیان بھی روابط بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اتوارکو صدر آصف علی زرداری نے اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کے نام ایک خط لکھا اور اپنی حکومت کی مصالحتی پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنا تعاون فراہم کریں۔
یہ خط جس میں صدر کی طرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے نواز شریف کی طرف سے کچھ عرصے پہلے لکھے گئے اس خط کا جواب ہے جس میں اپوزیشن رہنما نے ملکی مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت بد عنوانی کے خاتمے اور اداروں کی اصلاح سمیت دیگر اہم معاملات کے سلسلے میں فوری اقدامات کرے۔
ایوان صدر سے جاری کردہ خط کے متن میں یہ پیشکش کی گئی ہے کہ نواز شریف اپنی جماعت کے سینئر نمائندے نامزد کریں جو حکومت کے ساتھ مل کر وہ مشکل فیصلے کر سکیں جو ملک کو آ گے لے جانے کے لیے درکار ہیں۔
خط میں نواز شریف سے اصلاحاتی جنرل سیلزٹیکس بل کی منظوری ، خسارے میں چلنے والے اداروں کی تشکیل نو ، اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور ’تقسیم کر کے سیاست کرنے‘ کی پالیسی کے خلاف اتحاد میں تعاون طلب کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ انہیں افراط زر میں اضافے میں کار فرما عوامل سے آگاہ کرنے کے علاوہ کہا گیا ہے کہ احتساب بل کے بارے میں ن لیگ کے تحفظات کی روشنی میں اس پر نظر ثانی کی جائے گی۔
صدر زرداری کےخط کے جواب پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ن لیگ کے ایک رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کیونکہ بر سر اقتدار ہے اس لیے فیصلے اور اقدامات کرنا دراصل اسی کی ذمےداری ہے ۔
ادھر اتوار ہی کو متحدہ قومی موومنٹ کے ایک وفد نے اپنے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار کی سر براہی میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی جس میں دونوںٕ اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلافی امور پر بات چیت ہوئی۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی جب سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے اس الزام کے بعد سے کہ کراچی میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کے واقعات میں ایم کیو ایم ملوث ہے دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ ہے۔
ملاقات کے بعد فاروق ستار نے وزیر اطلاعت قمر زمان کائرہ کے ساتھ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا ’’ وزیر اعظم نے ہماری باتیں بہت سنجید گی سے سنیں اور یہ یقین دلایا کہ ہمارے تحفظات اور شکایات کا ازالہ کیا جائے گا ‘‘
حال ہی میں جمعیت علماء اسلام ف کے وفاقی حکومت سے علیحدگی اور انہیں واپس لانے کی حکومتی کوششوں میں ناکامی کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے اپنی مخلوط حکومت کو بچانے کے لیے متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اتحاد برقرار رکھنا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں ایم کیو ایم اپنے سایسی مفادات کے حصول لئے خاصی مظبوط پوزیشن رکھتی ہے۔
وزیراعظم ملاقات سے پہلے ایم کیوایم کے ممبر قومی اسمبلی عبدالرشید گوڈل نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ ان کی پارٹی موجودہ جمہوری حکومت کو غیر مستحکم نہیں کرنا چاہتی بلکہ مل کر کام کرنا چاہتی ہے ’’تاہم ہم پیلز پارٹی کے ساتھ اختلافی امورضرورطے کرنا چاہیں گے‘‘۔
تجزیہ نگاروں کی رائے میں اگر متحدہ قومی موومنٹ کسی مرحلے پر حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کرتی ہے تو بھی حکمران جماعت کے پاس بہرحال یہ راستہ موجود ہو گا کہ وہ مسلم لیگ ق کو اتحاد میں شامل کر لے۔
جبکہ دوسری طرف ق لیگ ہی کے ہم خیال گروپ نے بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونے کے واضح اشارے دیے ہیں۔