اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی جانب سے توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کے خلاف ریفرنس نہ بھجوانے کے فیصلے پر ایک جانب حکومت خوش ہے تو دوسری جانب اپوزیشن ناراض ۔ آگے کیا ہوگا اس حوالے سے آئینی ماہرین کی رائے بھی تقسیم ہو چکی ہے ۔
اسلام آباد میں تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے نا اہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن میں نہ بھیجنے کے فیصلے پر کہا کہ اسپیکر نے میرے حق میں فیصلہ دیا جس سے پاکستان میں جمہوریت کی فتح ہوئی ہے ۔ ان کا کہنا تھاکہ عدلیہ پاکستان کے پہلے اسپیکر مولوی تمیز الدین کی بات سن لیتی تو آج ملک کی تقدیر بدل جاتی ۔
وفاقی وزیر اطلاعا ت قمر زمان کائرہ نے میڈیا کو بتایاکہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ نہیں دیا تھا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان ، تمام جماعتیں اور عالمی برادری یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم مانتی ہیں تاہم صرف مسلم لیگ ن واحد جماعت ہے جو ”میں نہ مانوں“ کی رٹ لگائے ہوئے ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسپیکر کے پاس اختیار نہیں انہیں یاد کرنا ہو گاکہ اگر اختیار نہیں ہوتا تو عدالت انہیں ریفرنس بھیجنے کا کہتی ہی نہیں ۔
ادھر ملتان میں فیصلے کے بعد پیپلزپارٹی کے کارکنان کی بڑی تعداد وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گئی اور وزیراعظم کے حق میں نعرے بازی کی اور جشن منایا ۔ اس موقع پر مٹھایاں بھی تقسیم کی گئیں اور کارکنان ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کرتے رہے ۔
اس تمام تر صورتحال میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن خوش نظر نہیں آرہی۔
ایوان زیریں میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار نے اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ اسپیکر نے عہدے کا غلط استعمال کیا ہے ۔اسپیکر کی جانب سے ریفرنس نہ بھیجنا ایک عہدے کو بچانے کی کوشش ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ ایک جانب اعلیٰ عدلیہ کے سات ججوں نے متفقہ فیصلہ کیا تو دوسری جانب اسپیکر کہتی ہیں کہ ریفرنس بھیجنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ۔
آئینی ماہرین کے رائے اس تمام تر صورتحال میں تضاد کا شکار ہے ۔ بعض کا خیال ہے کہ اسپیکر کا فیصلہ حتمی ہے اور اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ وزیراعظم سے متعلق کوئی فیصلہ کرے ۔
دوسری جانب یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ معاملہ چیف الیکشن کمشنر کے پاس از خود جا چکا ہے اور الیکشن کمیشن فیصلہ کرسکتا ہے ۔ ماہرین کے مطابق توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کیخلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ ابہام کا شکار تھا ۔ اگر اس میں آئین کے آرٹیکل ترسٹھ ون جی کا ذکر ہوتا تو معاملہ واضح ہو جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔