پاکستان میں اقتدار کے لئے سہ طرفہ رسّہ کشیََ ۔ اس عنوان سے ’واشنگٹن پوسٹ‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں جو بُحران پیدا ہو گیا تھاوہ سویلیں حکومت ، فوج اور سپریم کورٹ کے درمیان اِس رسّہ کشی کی وجہ سے پس منظر میں چلا گیا ہے اور اس سے برآمد ہونے والا نتیجہ ہی طے کرےگا کہ آیا پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا یا پھر وہ افغانستان اور دوسرے معاملوں میں کُھلی عداوت پر اُتر آئے گا۔
اور یہ اتّفاقی امر نہیں ہے کہ آیا ملک کی طاقتور فوج اور انٹلی جینس سروس پر سول ادارے کوئی روک لگا سکیں گے ۔ تاریخ سے تو یہی سبق ملتا ہے کہ جنرلوں کی کامیابی یقینی ہے ، جب کہ اس وقت صورت حال تعطّل کی شکار ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس سارے ہنگامے کے مرکزی کردار سابق سفیر حسین حقّانی ہیں جن کو ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے صدر زردای کی حکومت کا نہایت لائق نمائندہ اور جمہوریت اور سول حکمرانی کا دیرینہ علمبردار قرار دیا ہے اور جن پر الزام ہے کہ انہوں نے زرداری حکومت کو فوجی انقلاب سے بچانے کے لئے اوباما انتظامیہ سے امداد طلب کی تھی۔لیکن جو اس کی تردید کرتے ہیں انہوں نے سفارت سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے۔ کیونکہ، بقول اخبار کے، انہیں اندیشہ ہے،کہ کہیں ان کا بھی پچھلے سال قتل ہونے والے لبرل سیاست دانوں کا سا حشر نہ ہو۔
اخبار کہتا ہے کہ فوج اور مسٹر زردار ی کے علاوہ اس تنازعہ میں سپریم کورٹ ایک تیسرے فریق کی حیثیت سے اُبھری ہےجس نے حقّانی کی تفتیش کرنے کے علاوہ وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کا مقدّمہ چلانے کی دہمکی دے رکھی ہے کیونکہ انہوں نے سوٹزر لینڈ سے مسٹر زرداری کے خلاف قانونی چارہ جوئی دوبارہ شروع کرنے کی درخواست نہیں کی۔
اخبار کا خیال ہے کہ مسٹر حقّانی کے خلاف یہ مقدّمہ شواہد کی عدم موجودگی میں دم توڑتا نظر آ ہا ہےاور لگ رہا ہے کہ مسٹر زرداری کی حکومت مارچ تک برقرار رہے گی ۔اُس ماہ سینیٹ کے انتخاب ہونے والے ہیں جن میں حکمران پارٹی کی جیت اغلب ہے اور اس طر ح جنرلوں کے مقابلے میں اسےمزید تقویت حاصل ہوگی ۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ اوباما انتظامیہ بادیُ النظر سے پاکستان کے سول حکومت کی حامی رہی ہےاگرچہ افغانستان جیسے امور میں اس نے اسے نظرانداز کر کے فوج اور انٹلی جینس ایجنسی سے براہ راست واسطہ رکھنے کو ترجیح دی ہے ۔لیکن پچھلے دو سال سے یہ واضح ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین دیرپا شراکت داری اُسی صورت ممکن ہے اگر ایک اعتدال پسند سویلین قیادت فوج پر اپناتسلّط قائم کرے اور اس زہریلے ایجنڈے کو مسمار کرے جس کی بنیاد ہندوستان سے نفرت پر ہے اور جو ایک آزاد اور مستحکم افغانستان کو مسترد کرتا ہے۔
اخبار کاخیال ہے کہ اسلام آباد کی موجودہ سیاسی رسّہ کشی کا پانسہ پلٹنے میں اوبامہ انتظامیہ شائید کچھ نہ کر سکے، کھلم کھلا مداخلت کا اثر غالباً اُلٹا ہوگا۔ البتہ اسے اُمید کرنی چاہئے کہ حقّانی کا فریق کامیاب ہو یا کم از کم بچا رہے۔
ادھر ’انٹرنیشنل ہیرلڈٹریبیون‘ کہتا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سرکردہ پاکستانی جنرلوں پرتنقید میں نرمی کا جو لہجہ اختیا ر کیا ہے۔ اس کا مقصد یہ لگ رہا ہے کہ سول حکومت اور فوج کے مابین کشیدگی کم ہو۔ انہوں نے کہا تھاکہ وہ یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں کہ فوجی قیادت نے کوئی غیر قانونی حرکت تھی۔ یا قواعد کی خلاف ورزی کی تھی۔ادھر اخبار کے بقول میمو گیٹ کا سکینڈل میں اس کے مرکزی کردار امریکی تاجر منصور اعجاز کے دوسری مرتبہ عدالت میں نہ پہنچنےسے اڑچن پیدا ہو گئی ہے۔ اور ان کو اب 9 فروری کو حاضر ہونے کا آخری موقع دیا گیا ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس کی غیر حاضری کی وجہ سے اس پر اعتبار نہیں رہا۔ اخبار کہتا ہے کہ سویلین حکومت کو اگلا بڑا چیلنج یکم فروری کو ہوگا جب سپریم کورٹ اُس مقدمے کی سماعت کرنے والی ہے،جس کامقصد صدر زرداری کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کرنا ہے۔
صدر اوباما نےاس ماہ کانگریس سے جو یہ درخواست کی تھی کہ انہی تجارت سے متعلّق اداروں کوضم کرنے اور تجار کے محکمے کو ختم کرنے کی اجازت دی جائے اس پر’ ڈلیس مارننگ نیوز‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ری پبلکن خود حکومت کو زیادہ موثر بنانے پر زور دیتے آئے ہیں لہٰذا انہیں اس موقع کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئیے۔اور جیسا کہ صدر نے کہا ہے ان ادارو ں کو ضم کرنے سے تین ارب ڈالر کی بچت ہو گی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: