پاکستان کے سیاسی درجہ حرات میں گذشتہ چند روز سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔
ناقدین کی رائے میں اس محاذ آرائی کے باعث عوام کو درپیش سنگین مسائل حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہو رہے ہیں۔
پاکستان کو ان دنوں توانائی کے بحران، صنعتی پیداوار میں کمی، افراط زر اور بے روزگاری سیمت متعدد مسائل کا سامنا ہے اور ملک کی معیشت کا بیشتر دارومدار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے حاصل کیے جانے والے اربوں ڈالر مالیت کے قرضے اور سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم پر ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی تناؤ میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور دونوں جماعتوں کے رہنمامسلسل ایک دوسرے کے خلاف تنقیدی بیانات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں تازہ ترین بیان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے اتوار کو دیا گیا جس میں اُنھوں نے وفاقی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ جان بوجھ کر ایسے اقدامات کر رہی ہے جن سے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں کمی آئے۔
صوبائی وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ صنعتی شہر فیصل آباد کو گیس کی غیر منصفانہ لوڈشڈنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد متاثرہ فیکٹریوں کے مزدوروں کو احتجاج کی طرف راغب کرنا ہے۔
شہباز شریف کے بیان کے کچھ دیر بعد لاہور میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے اُن کی جماعت پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) غیر جمہوری طریقوں سے دوسری جماعتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ سلسلہ فوراً بند ہونا چاہیئے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے جمعہ کو اپنی جماعت کی مجلس عاملہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کے بعد صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور ایک روز قبل پنجاب حکومت نے صوبائی کابینہ میں شامل پیپلز پارٹی کے سات وزرا کو اُن کے عہدوں سے ہٹانے کے لیے اپنی درخواست گورنر لطیف کھوسہ کو بھجوا دی تھی۔
آئین کے تحت گورنر آئندہ 15 روز میں اس درخواست کی توثیق یا صوبائی حکومت کو اس کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت دینے کے پابند ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت اس کی طرف سے تجویز کردہ اقتصادی و انتظامی اصلاحات پر
اطمینان بخش پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے اور جماعت اب مزید اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ بیشتر تجاویز اور مطالبات پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
ناقدین کے خیال میں دونوں جماعتوں کے درمیان تلخیوں کا یہ سلسلہ آئندہ انتخابات تک جاری رہنے کا امکان ہے جو آئین کے مطابق 2013ء میں ہونے ہیں۔
پاکستان کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ایسے وقت ہوا ہے جب ملک میں دوہرے قتل کے الزام میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری قومی اور بین الا قوامی سطح پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پائی جا رہی ہے۔
امریکہ مسلسل 36 سالہ ریمنڈ ایلن ڈیوس کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے کیوں کہ اُس کے بقول لاہور قونصل خانے سے منسلک اہلکار نے 27 جنوری کو دونوں پاکستانیوں پر گولیاں ذاتی دفاع میں چلائی تھیں اور اُسے سفارتی استثنا حاصل ہے ۔ تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ استثنا کا حتمی فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کرے گی جس کے سامنے یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔