سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جیتنے والے نئے چہروں میں 54 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے جبکہ سابق کرکٹر عمران خان کی تحریک انصاف کے 21 اور سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے 10 امیدوار ہیں۔
اسلام آباد —
الیکشن کمیشن کی جانب سے 11 مئی کے انتخابات کے جاری کردہ نتائج کے مطابق 256 نشستوں میں جیتنے والے امیدواروں میں سے تقریباً 119 ایسے ہیں جو کہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نئے چہروں کو متعارف کرانے کا رجحان مثبت اور جمہوری پارلیمانی نظام کو بہتر بنانے کی جانب پہلا قدم ہے۔
ملک میں پارلیمانی نظام سے متعلق امور کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کی جوائنٹ سیکرٹری آسیہ ریاض نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے ادارے کے جائزے کے مطابق سابق قومی اسمبلی میں بھی پہلی بار منتخب ہونے والے کئی امیدواروں کی کارکردگی قدرے بہتر رہی تاہم ان کا کہنا تھا۔
’’جن جماعتوں سے وہ آئے ہیں دیکھنا ہے کہ پارٹی کے کلچر میں تبدیلی لانے میں ان کا کتنا کردار ہوتا ہے۔ یہ ہر ایک کے لئے ایک بڑا امتحان ہے۔ پھر سینیئرز کو بھی قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ان کی مدد کرنی چاہئے بجائے ان کی طرف سے اصلاحات لانے کی کوششوں کے رستے میں رکاوٹ بنیں۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جیتنے والے نئے چہروں میں 54 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے جبکہ سابق کرکٹر عمران خان کی تحریک انصاف کے 21 اور سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے 10 امیدوار ہیں۔ پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بننے والوں میں 13 آزاد اور سات متحدہ قومی موومنٹ کے بھی امیدوار شامل ہیں۔
آسیہ ریاض کا کہنا تھا کہ سابق فوجی حکمران ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی اداروں میں طلباء کی تنظیموں پر پابندی اور بعد میں ان اداروں کی جانب سے اس بارے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے ملکی سیاست میں نئے اور نوجوان افراد کے آنے کی راہ بڑی حد تک محدود ہوگئی ہے۔
’’بلدیاتی نظام سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کون گلی محلوں کی سیاست چاہتا ہے اور جو پالیسی سازی کے عمل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں وہ پھر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بنیں گے۔ اب تو سب کچھ ملاجلا کام ہے۔ ایم این ایز کو بھی فنڈ مل رہے ہیں۔ درجہ با درجہ آگے بڑھنے سے شاید آپ کو قومی اور صوبائی سطح پر بہتر لوگ مل سکیں۔‘‘
پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی حکومت کے پانچ سالہ مدت کے ختم ہونے کے بعد انتخابات کے ذریعے نئی حکومت بننے جارہی ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس جمہوری اور سیاسی عمل کا جاری رہنا اور نئے لوگوں کی اس عمل میں شمولیت سے ملک میں استحکام اور ترقی ممکن ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نئے چہروں کو متعارف کرانے کا رجحان مثبت اور جمہوری پارلیمانی نظام کو بہتر بنانے کی جانب پہلا قدم ہے۔
ملک میں پارلیمانی نظام سے متعلق امور کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کی جوائنٹ سیکرٹری آسیہ ریاض نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کے ادارے کے جائزے کے مطابق سابق قومی اسمبلی میں بھی پہلی بار منتخب ہونے والے کئی امیدواروں کی کارکردگی قدرے بہتر رہی تاہم ان کا کہنا تھا۔
’’جن جماعتوں سے وہ آئے ہیں دیکھنا ہے کہ پارٹی کے کلچر میں تبدیلی لانے میں ان کا کتنا کردار ہوتا ہے۔ یہ ہر ایک کے لئے ایک بڑا امتحان ہے۔ پھر سینیئرز کو بھی قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ان کی مدد کرنی چاہئے بجائے ان کی طرف سے اصلاحات لانے کی کوششوں کے رستے میں رکاوٹ بنیں۔‘‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جیتنے والے نئے چہروں میں 54 کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے ہے جبکہ سابق کرکٹر عمران خان کی تحریک انصاف کے 21 اور سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے 10 امیدوار ہیں۔ پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بننے والوں میں 13 آزاد اور سات متحدہ قومی موومنٹ کے بھی امیدوار شامل ہیں۔
آسیہ ریاض کا کہنا تھا کہ سابق فوجی حکمران ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی اداروں میں طلباء کی تنظیموں پر پابندی اور بعد میں ان اداروں کی جانب سے اس بارے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے ملکی سیاست میں نئے اور نوجوان افراد کے آنے کی راہ بڑی حد تک محدود ہوگئی ہے۔
’’بلدیاتی نظام سے یہ واضح ہوجائے گا کہ کون گلی محلوں کی سیاست چاہتا ہے اور جو پالیسی سازی کے عمل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں وہ پھر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بنیں گے۔ اب تو سب کچھ ملاجلا کام ہے۔ ایم این ایز کو بھی فنڈ مل رہے ہیں۔ درجہ با درجہ آگے بڑھنے سے شاید آپ کو قومی اور صوبائی سطح پر بہتر لوگ مل سکیں۔‘‘
پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سیاسی حکومت کے پانچ سالہ مدت کے ختم ہونے کے بعد انتخابات کے ذریعے نئی حکومت بننے جارہی ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس جمہوری اور سیاسی عمل کا جاری رہنا اور نئے لوگوں کی اس عمل میں شمولیت سے ملک میں استحکام اور ترقی ممکن ہے۔