سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے حکومت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ اور پارلیمان کی کمیٹی برائے قومی سلامتی بیک وقت امریکی قیادت کو بھیجے گئے میمو یا خط کی تحقیقات کر سکتے ہیں۔
میمو اسکینڈل سے متعلق منگل کو سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی عدالت کو اپنا کام کرنے سے نہیں روک سکتی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں دائر آئینی درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کو براہ راست سماعت کا اختیار حاصل نہیں اور یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں زیر غور ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے وفاق کا موقف دہراتے ہوئے متنازع خط کو ایک غیر اہم دستاویز قرار دیا اور سپریم کورٹ سے اس کے بارے میں دائر آئینی درخواستوں کو مسترد کرنے کی استدعا کی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم 9 رکنی بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ کہیں درخواست گزاروں کا اصل مقصد سیاسی مفاد حاصل کرنا تو نہیں۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے احاطے میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا ’’یہ بات ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ... دو فریق خاص طور پر آئی ایس آئی کے ڈی جی صاحب، میں نے عدالت میں بھی کہا ہے کہ یہ تو بے نامی درخواست ہے اصل میں تو درخواست گزار وہ ہیں۔‘‘
فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پروز کیانی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا نے عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے بیانات میں میمو کو ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کی حمایت کی ہے اور مبینہ طور پر اُن ہی کی ایما پر یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں لایا گیا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے اس معاملے میں آئی ایس آئی کے کردار پر سوالات اُٹھاتے ہوئے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل پاشا نے کس کی اجازت سے متنازع میمو کی ابتدائی تحقیقات کیں۔