مبصرین کا کہنا ہے کہ گوکہ شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے پر تمام فریقوں نے اتفاق کیا تھا لیکن اس کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے برقرار رہنا ناگزیر ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کے ساحلی شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے رینجرز کی قیادت میں ٹارگٹڈ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے اور اتوار کو بھی مختلف علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے کارروائیاں کرتے ہوئے ایک درجن سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں لیا۔
شہر کی بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ایک سابق رکن اسمبلی ندیم ہاشمی کی اس آپریشن کے دوران گرفتاری پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔
تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم سے رابطہ کرکے ان کے تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے تاکہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہونے والے آپریشن کو متنازع بننے سے روکا جا سکے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گوکہ شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے پر تمام فریقوں نے اتفاق کیا تھا لیکن اس کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے برقرار رہنا ناگزیر ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایم کیو ایم کے خدشات کی وجہ اس جماعت کے ماضی کے تجربات ہیں۔
’’1992ء اور اب میں بہت کم مشابہت ہے اس کے باوجود ایم کیو ایم کو لگا کہ انھیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے اس لیے انھوں نے مزید اس بڑھاوے کو روکنے کے لیے اس قسم کی راہ اپنائی۔
ندیم ہاشمی کی گرفتاری کو اس وقت روکا جا سکتا تھا اور اس نے آپریشن کو متنازع کیا پھر نائن زیرو کے آس پاس جب یونٹ آفسز پر چھاپے پڑے وہاں سے سامان اٹھوایا گیا تو یہ وہ عوامل ہیں جن سے ایم کیو ایم کا موقف اور مضبوط ہوا۔‘‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے خیال میں کراچی میں ہونے والا آپریشن سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ ان کے نزدیک ماضی میں اس شہر میں ہونے والے آپریشنز کے برعکس اس مرتبہ مرکز اور صوبے میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں ہیں۔
’’بظاہر تو دونوں حکومتیں ایک ہی صفحے پر ہیں کہ ٹارگٹڈ آپریشن ہونا چاہیے لیکن اب تک لگ یہ رہا ہے کہ دونوں اس تذبذب کا شکار ہیں کہ اگر یہ آل آؤٹ جاتا ہے تو اس کے نتائج سیاسی طور پر کیا ہوں گے۔‘‘
گزشتہ روز سندھ کے گورنر عشرت العباد کے بیرون ملک روانہ ہونے کے بعد یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ انھوں نے کراچی میں ہونے والے آپریشن پر تحفظات کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ لیکن بعد ازاں ایوان صدر کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ انھیں گورنر کی طرف سے استعفیٰ موصول نہیں ہوا۔
ہما بقائی کے نزدیک گورنر سندھ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے تعلقات نسبتاً دوستانہ ہیں اور انھیں امید ہے گفت و شنید سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔
وفاقی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ امن و امان کی بحالی کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی اور اس ضمن میں تمام فریقوں کی مشاورت شامل حال رہے گی۔
شہر کی بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے ایک سابق رکن اسمبلی ندیم ہاشمی کی اس آپریشن کے دوران گرفتاری پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔
تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم سے رابطہ کرکے ان کے تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے تاکہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہونے والے آپریشن کو متنازع بننے سے روکا جا سکے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ گوکہ شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے پر تمام فریقوں نے اتفاق کیا تھا لیکن اس کی کامیابی کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے برقرار رہنا ناگزیر ہے۔
تجزیہ کار ہما بقائی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ایم کیو ایم کے خدشات کی وجہ اس جماعت کے ماضی کے تجربات ہیں۔
’’1992ء اور اب میں بہت کم مشابہت ہے اس کے باوجود ایم کیو ایم کو لگا کہ انھیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے اس لیے انھوں نے مزید اس بڑھاوے کو روکنے کے لیے اس قسم کی راہ اپنائی۔
ندیم ہاشمی کی گرفتاری کو اس وقت روکا جا سکتا تھا اور اس نے آپریشن کو متنازع کیا پھر نائن زیرو کے آس پاس جب یونٹ آفسز پر چھاپے پڑے وہاں سے سامان اٹھوایا گیا تو یہ وہ عوامل ہیں جن سے ایم کیو ایم کا موقف اور مضبوط ہوا۔‘‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے خیال میں کراچی میں ہونے والا آپریشن سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ ان کے نزدیک ماضی میں اس شہر میں ہونے والے آپریشنز کے برعکس اس مرتبہ مرکز اور صوبے میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں ہیں۔
’’بظاہر تو دونوں حکومتیں ایک ہی صفحے پر ہیں کہ ٹارگٹڈ آپریشن ہونا چاہیے لیکن اب تک لگ یہ رہا ہے کہ دونوں اس تذبذب کا شکار ہیں کہ اگر یہ آل آؤٹ جاتا ہے تو اس کے نتائج سیاسی طور پر کیا ہوں گے۔‘‘
گزشتہ روز سندھ کے گورنر عشرت العباد کے بیرون ملک روانہ ہونے کے بعد یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ انھوں نے کراچی میں ہونے والے آپریشن پر تحفظات کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ لیکن بعد ازاں ایوان صدر کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ انھیں گورنر کی طرف سے استعفیٰ موصول نہیں ہوا۔
ہما بقائی کے نزدیک گورنر سندھ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے تعلقات نسبتاً دوستانہ ہیں اور انھیں امید ہے گفت و شنید سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔
وفاقی حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ وہ امن و امان کی بحالی کے لیے صوبائی حکومتوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی اور اس ضمن میں تمام فریقوں کی مشاورت شامل حال رہے گی۔