مبصرین کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل ایم کیو ایم کی جانب سے اس بیان کے بعد ملک میں سیاسی صورت حال میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں حکمران پیپلز پارٹی کی ایک اہم اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے کہا ہے کہ اگر اس کے مطالبات تین دن میں پورے نہ کیے گئے تو وہ حکمران اتحاد سے الگ ہو جائے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل ایم کیو ایم کی جانب سے اس بیان کے بعد ملک میں سیاسی صورت حال میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا ہوسکتی ہے۔
ایم کیو ایم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے لندن اور کراچی میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کو مطالبات پورے کرنے کے لیے تین دن کی حتمی مہلت دی جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’’پیپلز پارٹی نے بار بار کے وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ایم کیو ایم کے جائز مطالبات پورے نہیں کیے جو خالصتاً عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق تھے۔‘‘
تاہم متحدہ کی جانب سے ان مطالبات کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
بیان میں کہا گیا کہ مطالبات پر مقررہ وقت میں عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ایم کیو ایم کے اراکین پارلیمنٹ حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھیں گے۔
’’متحدہ قومی موومنٹ کی قوت برداشت کو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس کی کمزوری سمجھا اور وہ ایم کیو ایم کے خلوص کو اس کی کمزوری سمجھتے ہوئے تمام تر وعدوں اور یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کرتے رہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم کیو ایم کے ’’الٹی میٹم‘‘ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
متحدہ نے اس سے پہلے کئی بار اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے ایسے الٹی میٹم دیے جبکہ وہ ایک مرتبہ حکومت سے الگ بھی ہوچکی ہے۔
دیگر اتحادی جماعتوں کے تحفظات کے باوجود، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سندھ میں بلدیاتی نظام کی بحالی پر حال ہی میں اتفاق رائے طے پایا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنگشنل اور سندھ کی نیشنل پارٹی نے اس معاملے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت میں شامل ایم کیو ایم کی جانب سے اس بیان کے بعد ملک میں سیاسی صورت حال میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا ہوسکتی ہے۔
ایم کیو ایم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے لندن اور کراچی میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کو مطالبات پورے کرنے کے لیے تین دن کی حتمی مہلت دی جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’’پیپلز پارٹی نے بار بار کے وعدوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ایم کیو ایم کے جائز مطالبات پورے نہیں کیے جو خالصتاً عوام کی فلاح و بہبود سے متعلق تھے۔‘‘
تاہم متحدہ کی جانب سے ان مطالبات کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
بیان میں کہا گیا کہ مطالبات پر مقررہ وقت میں عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ایم کیو ایم کے اراکین پارلیمنٹ حزب اختلاف کی نشستوں پر بیٹھیں گے۔
’’متحدہ قومی موومنٹ کی قوت برداشت کو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس کی کمزوری سمجھا اور وہ ایم کیو ایم کے خلوص کو اس کی کمزوری سمجھتے ہوئے تمام تر وعدوں اور یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کرتے رہے۔‘‘
پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم کیو ایم کے ’’الٹی میٹم‘‘ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
متحدہ نے اس سے پہلے کئی بار اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے ایسے الٹی میٹم دیے جبکہ وہ ایک مرتبہ حکومت سے الگ بھی ہوچکی ہے۔
دیگر اتحادی جماعتوں کے تحفظات کے باوجود، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سندھ میں بلدیاتی نظام کی بحالی پر حال ہی میں اتفاق رائے طے پایا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنگشنل اور سندھ کی نیشنل پارٹی نے اس معاملے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے۔