پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے گزشتہ جمعہ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن کی طرف سے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اُن میں کوئی صداقت نہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اُنھوں نے اپنی عزت نفس کو ایک طرف رکھتے ہوئے جمعہ کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش آنے والے واقعات کو درگزر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اُنھوں نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل کی بھی تجویز دی۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں چوہدری نثار نے کہا کہ اُن کی جماعت اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ وہ الزامات کا جواب نا دیں کیوں کہ اس وقت سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے پارلیمان میں حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں میں مکمل ہم آہنگی ہے۔
تاہم چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اُن کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ اُن کا سامنا کرنے کے لیے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن یا کمیٹی کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
’’جو بھی الزام لگائے ہیں، اُن میں نوے فیصد نہیں، ستر فیصد نہیں بلکہ جو مجھ پر الزامات لگائے گئے ہیں اگر کمیشن کے سامنے اُن میں ایک فیصد بھی حقیقت سامنے آئے تو میں وزارت ہی نہیں سیاست سے ریٹائرڈ ہو جاؤں گا‘‘۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے قبل ہفتہ کی صبح چوہدری نثار نے وزیراعظم سے ملاقات کی تھی۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں جمعہ کو پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے چوہدری نثار پر الزامات لگاتے ہوئے وزیراعظم سے کہا تھا کہ وہ وفاقی وزیر داخلہ سے ہوشیار رہیں۔
اس سے قبل چوہدری نثار نے بھی ایک بیان میں اعتراز احسن پر الزامات عائد کیے تھے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ وہ اپنی جماعت اور قیادت کے ساتھ ہمیشہ کی طرح کھڑے ہیں۔
وزیر داخلہ کا موقف تھا کہ اُنھوں نے حزب مخالف کی جماعت یا اپوزیشن پر تنقید نہیں کی تھی بلکہ سینیٹر اعتزاز احسن کی طرف سے اُن کے بارے میں بیان پر ردعمل دیا تھا۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کشیدگی کے باعث ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے والی جماعتوں کے خلاف حکومت اور حزب مخالف کی جماعتیں تقسیم ہو سکتی ہیں، جس سے دھرنوں کے خلاف پارلیمان کی مشترکہ حکمت عملی متاثر ہو گی۔
اسی لیے وزیراعظم کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے چوہدری نثار کو تحمل کامظاہرہ کرنے کا کہا تھا۔
اُدھر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے تو جاری ہیں لیکن ہفتہ کو عمران خان کا کنٹینر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سے پیھچے ہٹا کر دوبارہ’ڈی چوک‘ پہنچا دیا گیا۔
جب کہ عوامی تحریک کارکنوں نے بھی پارلیمان کے سبزہ زار سے اپنے خیمے ہٹا کر کے احاطے کو خالی کر دیا ہے۔
ان دونوں جماعتوں نے گزشتہ ہفتہ کی شب وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیش قدمی کا فیصلہ کیا تھا جس پر اُن کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں اور ان میں تین افراد ہلاک اور 100 سے زائد پولیس اہلکاروں سمیت 500 افراد زخمی بھی ہوئے۔
مظاہرین خاص طور پر عوامی تحریک سے تعلق رکھنے والے کارکن پاکستان سیکریٹریٹ کی عمارتوں کے باہر پہنچ گئے تھے اور کئی دنوں تک اہم وزارتوں پر مشتمل سیکریٹریٹ میں معمول کا کام نہیں ہو سکا تھا۔
تاہم اب عوامی تحریک کے کارکن اُس جگہ سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اُدھر سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حکومت تحریک انصاف کے مطالبات کے جواب میں تحریری جواب بھی جاری کر چکی ہے۔