پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنے عہدے سےعلیحدگی کے بعد باقاعدہ سیاسی میدان میں سرگرم ہو گئے ہیں اور اتوار کو کراچی میں انہوں نے پہلے عوامی جلسے سے ویڈیو لنک کے ذریعے براہ راست دبئی سے خطاب کیا۔
پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ سیاست میں بنیادی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میں مہاجر ہوں ،اس پر مجھے فخر ہے لیکن میں اپنے آپ کو مہاجر یا ایم کیو ایم کا نہیں کہتا۔ میں اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتا ہوں۔ میں پاکستانی ہوں، سب سے پہلے خود کو پاکستان کہتا ہوں ۔‘
اپنے خطاب میں انہوں نے بار بار کہا کہ ’ہمیں اب قومیتیں چھوڑنا پڑیں گی۔ پاکستان میں ایم کیو ایم کا نام دھبہ بن گیا ہے۔ اگر آپ پنجاب چلے جائیں تو اسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ لوگ بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز، ’را‘کا ایجنٹ کہتے ہیں ۔ جو قوم ہندوستان سے آئی تھی وہ بہت پڑھی لکھی تھی لیکن آج اس میں جہالت بڑھ رہی ہے کیوں کہ یہ تعلیم حاصل نہیں کرتے ۔‘
اپنے خطاب میں انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’آج کراچی کی قسمت میں مرنا اور مارنا ہی رہ گیا ہے ۔ یہاں سندھی، بلوچی، اردو اسپیکنگ، گجراتی، پٹھان، بہاری اور بنگالی سب ہی رہتے ہیں لیکن یہ قومیں ملکر نہیں رہتیں۔ بعض سیاستدانوں نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے انہیں آپس میں لڑایا ہوا ہے ۔ انہیں ہتھیار اور گولیاں دیتے ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے کو مارتے رہیں حالانکہ اگر یہی قومیں مل کر رہیں تو پورے ملک میں یکجہتی، امن اور بھائی چارے کا پیغام عام ہو گا۔ میں اسی بنیادی تبدیلی کو لانے کی بات کر رہا ہوں۔ اگر عوام میرے ساتھ ہوں تو یہ سب باتیں ممکن ہیں۔ ‘
انہوں نے پیغام دیا کہ عوام ان کے ساتھ چلیں، انہیں فولو کریں۔ ان کہنا تھا کہ’ میں آپ کو اس راستے پر لے کر چلوں گا۔ اسی میں آپ کا اور ملک کا فائدہ ہے۔ کب تک ہم ایک دوسرے کو مارتے اور لاشیں اٹھاتے رہیں گے ؟ اب وقت آ گیا ہے کہ سوچ کو تبدیل کیا جائے ۔
کراچی پورے پاکستان کا واحد شہر ہے جس میں تمام قوموں کے محنت کش بستے ہیں ۔ کراچی سے انگنت لوگوں کا چولہا چلتا ہے ۔ سب قومیں مل جائیں تو پاکستان کا فائدہ ہی فائدہ ہو گا۔ یکجہتی آ جائے گی۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ سب ایک ہو جائیں۔ میں آرمی چیف رہا، صدر رہا، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی رہا ۔ اب مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ پاکستان کی بہتری ، اس کی ترقی ، سالمیت اور پاکستان کے غریب عوام کی خوشحالی چاہئے ۔ میں سیاست میں اسی لئے آیا ہوں کہ سیاست میں بنیادی تبدیلی لائی جائے۔
مہاجر تین سال سے کوزے میں بند ہیں۔ اس سے انہیں کیا ملا؟ تباہی، نقصان، بربادی۔ اسے اب ختم کر دیں۔ میرے ساتھ چلیں تو میں اسے ختم کرا دوں گا۔ ابھی آپ کا نام کیا ہے ؟ یہ را کے ایجنٹ ہیں، بھتہ خور ہیں، ٹارگٹ کلر ہیں۔ اس لپیٹ میں سبھی آ جاتے ہیں کیوں کہ کسی کے ماتھے پر نہیں لکھا کہ وہ شریف ہے۔ سڑک پر سے گزریں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ بھتہ خور جا رہا ہے۔ اس سے باہر نکلنا ہو گا اور میں اس سے آپ کو باہر نکالوں گا میرا ساتھ دو۔
انہوں نے کہا کہ ’اپنے ذہنوں میں یہ بات بٹھا لیجئے کہ آپ سب سے پہلے پاکستانی ہیں، دوسرے نمبر پر سندھی، پھرکراچی کے اور اس کے بعد اردو اسپکنگ۔ لیکن جونہی آپ اس ترتیب کو الٹا کرتے ہیں ایک دوسرے سے جھگڑے اور اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ذہنیت تبدیل کرنا پڑے گی ۔ اگر ہم کراچی اور حیدرآباد میں کامیاب ہو گئے تو پیپلز پارٹی کو شکست دے سکیں گے ۔ اس کے بعد باقی علاقوں کو فتح کرسکیں گے۔ عوام ساتھ ہو تو ہرکام ہوسکتا ہے ، اکیلا میں کچھ بھی نہیں۔ ‘
پرویز مشرف سے قبل ان کی جماعت ’آل پاکستان مسلم لیگ ‘کے مقامی عہدیداروں نے بھی خطاب کیا ۔ اے پی ایم ایل کے صدر ڈاکٹر محمد امجد کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف نے انتخابی جلسوں کا آغاز کراچی سے کیا ہے کیوں کہ کراچی میں ہی وہ ہجرت کر کے آئے اور پلے بڑھے۔ اس شہر سے انہیں انسیت ہے۔ اسی لئے وہ اپنے دور میں بھی کراچی کے لئے یکے بعد دیگرے تعمیراتی منصوبے اور پیکیجز کا اعلان کرتے رہے۔ کراچی سے انتخابی جلسوں کے آغاز کے بعد اب 14تاریخ کو لاہور کا نمبر ہے۔ اس کے بعد ملک کے دیگر شہروں میں عوامی جلسے منعقد کئے جائیں گے ۔
کراچی کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز کے کراچی سے انتخابی جلسوں کے آغاز کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کراچی کے شہری کسی حد تک ہی صحیح پرویز مشرف کو بطور سیاسی رہنما پسند کرتے ہیں ۔ ایم کیو ایم عروج کے زمانے سے اب تک پرویز مشرف کا ساتھ دیتی آئی ہے ۔ عام شہریوں کے دلوں میں مشرف کے لئے ہمدردی کا جذبہ ہے۔ تاہم پرویز مشرف نے کافی دیر بعد کراچی سے سیاسی میدان میں اترنے کا اعلان کیا ہے۔ اس لئے انہیں ووٹ بینک بنانے میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ چھ ماہ میں ایسا ممکن ہوتا بھی نظر نہیں آ رہا۔ اس حوالے سے مشرف کو مسلسل کام کرنے اور طویل وقت کی ضرورت ہے ۔
کچھ اور سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے جس مقامی قیادت کو سیاسی میدان میں اتارا ہے اس میں کوئی بڑا نام شامل نہیں ۔ یہ قیادت عام شہریوں کے لئے ’انجان‘ ہے ۔ اتوار کو ہونے والے جلسے کا اگر یہی مقصد تھا کہ سیاسی میدان میں اترا جائے تو مشرف اس حوالے سے کامیاب رہے ہیں۔ تاہم انہیں منزل کے حصول کے لئے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ ایسے میں اس بار کے انتخابات ان کی پارٹی اور نظریات کے لئے محض ایک ’تعارف ‘ہی ثابت ہوں گے