پاکستان میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف کے علاوہ مذہبی اور سیاسی جماعت عوامی تحریک کی طرف سے حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب 14 اگست کو لانگ مارچ کے اعلان کے تناظر میں ملک میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس سیاسی تناؤ اور بے یقینی کی صورت حال کے اثرات ملک کی اسٹاک ایکسچینج پر بھی نمایاں طور پر دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں۔
عہدیداروں کے مطابق حالیہ دنوں میں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں 1200 پوائنٹس سے زائد کی کمی ریکارڈ کی جا چکی ہے۔
وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ احتجاجی مارچ سے معاشی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا۔
’’ہم انتہائی محنت کر کے معیشت کو اس سطح پر لائے کہ اسٹاک ایکسچینج تیس ہزار کی سطح عبور کر گئی جو کہ ملک کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اور انھوں (احتجاج کرنے والوں) نے یہ کیا کہ تیس ہزار سے وہ گرا کر اس میں بارہ سو پوائنٹس کی کمی کر دی۔‘‘
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ایسے وقت جب حکومت معیشت کی بحالی کے لیے کوششوں میں مصروف ہے تمام جماعتوں کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیئے تھا۔
’’ہماری تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہو رہی ہیں ۔۔۔ ابھی (مارچ کے شرکاء) آئیں گے، اسلام آباد کے اندر تمام کاروبار معطل ہو جائے گا۔ اسلام آباد کی تجارتی سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی جن علاقوں سے یہ گزریں گے وہاں پر بھی تمام سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی ۔۔۔ اس سے بڑھ کر ملک کی معیشت کو نقصان ہوتا ہے اور جب بزنس سائیکل ٹوٹتا ہے تو اس کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بہت بڑی لاگت آتی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ حکومت کا موقف رہا ہے کہ پاکستان کو اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے اور معیشت کو درست کرنے کے لیے اصلاحات کی جا رہی ہیں۔
حکومت میں شامل وزرا کا کہنا ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے کیوں کہ غیر ملکی سرمایہ کار صرف اُسی ملک میں اپنا پیسہ لگاتا ہے جہاں نظام مستحکم ہو۔
احتجاج کرنے والی جماعتیں خاص طور پر عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اُن کے احتجاج کا مقصد ان کے بقول حقیقی جمہوریت کا فروغ ہے۔