پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نواز انتظامیہ نے اُن کی جماعت سے سیاسی معاملات پر مذاکرات کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم براہ راست رابطہ نا کرنے کی بنا پر بات چیت سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
نعیم الحق خان نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’براہ راست کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ پیغامات آئے ہیں تیسرے فریق کے ذریعے، لیکن باقاعدہ طور پر کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ بس وہ چاہتے ہیں کہ ملیں اور بیٹھ کر کوئی بات چیت کریں۔ جب براہ راست رابطہ کریں گے تو پھر ردعمل کا اظہار کریں گے۔‘‘
عمران خان کی جماعت تحریک انصاف قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت ہے اور گزشتہ انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کے ان کے مطالبے کی حمایت پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے بھی، جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے اسلام آباد میں تین ماہ کے لیے فوج طلب کرنے کے فیصلے پر نواز انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ملک میں ان کے بقول شفاف انتخابات کے ذریعے جمہوری نظام کے قیام کے لیے وسط مدتی انتخابات کے انعقاد میں کوئی مضائقہ نہیں۔
پیر کو شمالی وزیرستان سے متصل صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر بنوں میں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں سے ملاقات کے بعد عمران خان کا کہنا تھا۔
’’کسی کا اگر خیال ہے کہ وہاں جلسہ کر کے واپس آ جائیں گے، وہ غلط فہمی میں ہیں۔ یہ فیصلہ ہو گا کہ ملک میں شریف خاندان کی بادشاہت قائم ہو گی یا حقیقی جمہوریت آئے گی۔۔‘‘
کوششوں کے باوجود تحریک انصاف سے رابطوں پر حکومت کا کوئی موقف حاصل نا ہو سکا۔ اس سے پہلے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کی طرف سے ایسے رابطوں سے متعلق بیانات سامنے آ چکے ہیں۔
ادھر حکومتی عہدیدار تحریک انصاف کی ریلی کو جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی حرکت اور عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے تناظر میں سلامتی کے اعتبار سے خطرہ قرار دیتے آئے ہیں۔
نواز انتظامیہ نے 14 اگست کو ہی اسلام آباد میں سرکاری طور پر یوم آزادی کی تقریبات منعقد کرنے کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’ہم وحدت کا مظاہرہ کریں گے۔ آزادی ٹرین ہم چلائیں گے۔ پشاور سے (وزیراعلیٰ) پرویز خٹک اور گورنر صاحب مل کر اسے روانہ کریں گئے۔ وہ 4 ہزار کلومیٹر کا سفر کرے گی۔ ہماری فوج کی شجاعت کے کارنامے اور شہادت کی تاریخ سے وہ مزین ہو گی۔‘‘
عمران خان اور کئی حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ دارالحکومت میں فوج طلب کرنے کا فیصلہ تحریک انصاف کی ریلی کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے جبکہ نواز حکومت اس تاثر کو مسترد کر چکی ہے۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو فوج طلب کرنے کے خلاف درخواست کو تسلیم کرتے ہوئے وفاق اور متعلقہ وزارتوں کو آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے میں جواب جمع کروانے کا نوٹس جاری کیا ہے۔