پاکستان میں رواں سال مارچ میں ہونے والی مردم شماری کے لیے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے لگ بھگ دو لاکھ فوجی اہلکار تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ یہ فوجی گھروں اور افراد کے شمار کی مہم کے دوران مدد فراہم کریں گے۔
پاکستان میں 19 سال بعد مردم شماری کا آغاز رواں سال مارچ کے وسط سے ہو گا۔
حکام کے مطابق مردم شماری اور خانہ شماری کا عمل ایک ساتھ شروع کیا جائے گا اور اس کو دو مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔
ملک کے قواعد کے مطابق ہر 10 سال بعد مردم شماری کا انعقاد ہونا چاہیئے، آخری بار پاکستان میں مردم شماری 1998ء میں کی گئی تھی۔
پاکستان میں چھٹی مردم شماری کا انعقاد 2008ء میں ہونا تھا تاہم ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی مخدوش صورتِ حال کے باعث اس کا انعقاد مسلسل موخر کیا جاتا رہا۔
اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری نا صرف ملک میں موثر اقتصادی منصوبہ سازی کے لیے ضروری ہے بلکہ ملک کی پارلیمان اور دیگر منتخب عوامی اداروں میں عوام کی نمائندگی کے لیے بھی اسے کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
پاکستانی عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کے مختلف شعبوں کے بارے میں حکمت عملی یا منصوبہ سازی کی تیاری آبادی کے اندازے کے مطابق کی جاتی ہے اور جب نئی مردم شماری کے بعد آبادی کے بارے میں درست اعداد و شمار دستیاب ہوں گے تو ایک جامع منصوبہ بندی ممکن ہو سکے۔
مارچ کے وسط میں ہونے والی مردم شماری میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کا شمار بھی کیا جائے گا اور اس بارے میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ بھی سنایا ہے۔
گزشتہ سال لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ ماضی میں جتنی مرتبہ بھی مردم شماری ہوئی خواجہ سراؤں کی تعداد کا تعین نہیں کیا گیا، جس پر عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت سے جواب مانگا تھا اور اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ آئندہ مردم شماری میں خواجہ سراؤں کے اعدادوشمار بھی اکٹھے کیے جائیں۔