پاکستانی معاشرے میں جہاں اور بہت ساری روایا ت اورچیزوں میں تبدیلی آئی ہے وہیں ڈاکیہ، ڈاک بابو ، ڈاک خانہ اور ڈاک بنگلہ جیسی اصطلاحات بھی اب کم کم ہی سنائی دیتی ہیں ۔وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ زمانہ بدل گیاہے۔ واقعی سوچیں تو لگتا ہے جیسے سب کچھ ہی بدل گیا ہو۔ حالیہ برسوں میں ہی وقت نے اس تیزی سے کروٹ لی ہے کہ آج خاکی رنگ کی وردی والے ڈاکیے کے بارے میں بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے ۔ نئی عمر کے بچے کورئیر تو جانتے ہیں ڈاکیے سے واقف نہیں۔
ایک دور تھا کہ گاوٴں دیہات میں کھیتوں اور باغات کے درمیان بنی پرانی پگڈنڈیوں پرسائیکل سوار ڈاکیا نظر آیا نہیں کہ لوگ اس کی راہ میں کھڑے ہوجاتے تھے ، یہ معلوم کرنے کہ کہیں ان کا کوئی خط تو نہیں آیا۔ کچھ کو منی آرڈر کا انتظار ہوتا تو صبح ہوتے ہی ڈاکیے کی سائیکل کے ہینڈل پر لگی گھنٹی کی آواز پر لوگ کان لگاکر بیٹھ جاتے تھے۔ یہ عالم بھی تھا کہ ڈاکیے کے انکار پر لوگ مایوس ہوجاتے اور اگلے دن کی آس پر پھر اس کے انتظار میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔
شہروں کا حال یہ تھا کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں صدر پوسٹ آفس کے سامنے لوگ لائن میں لگ کر خط لکھوایا کرتے تھے۔ خط لکھنے والوں میں ریٹائرڈ ڈاکیوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں تھی۔ لوگوں کا بھی یہ عالم تھا کہ خط لکھوانے یا منی آرڈر فارم بھروانے کے لئے تجربہ کار ریٹائرڈ ڈاکیے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ لوگ مرکزی ڈاک خانوں کے گرد صبح سے شام تک بیٹھے رہتے تھے کہ ان پڑھ افراد کے خط لکھنا یا منی آرڈر فارم بھرنا ان کا ذریعہ بہترین اور پرسکون معاش تھا۔
ایک دور میں خط لکھنا خواندگی کا معیار تصور ہوتا تھا۔ اکثر بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ اپنے بچوں کو کم ازکم اتنا تو ضرور پڑھاوٴ کہ اسے خط لکھنا آجائے۔ شادی کے وقت لڑکی کا رشتہ لانے والے پوچھا کرتے تھے لڑکی خط پڑھنا جانتی ہے یا نہیں۔ سوال کا جواب اثبات میں ہوا تو سسرال والے پھولے نا سماتے تھے کہ چلو' پڑھی لکھی' لڑکی مل رہی ہے۔
عشرے ڈیڑھ عشرے پہلے تک شادی بیاہ، خوشی غمی یا کسی اور اہم تقریبات میں شرکت کیلئے رشتے داروں اور دوستوں کو دعوت نامے بذریعہ خط یا ٹیلیگرام دیئے جاتے تھے ۔ امتحانی رزلٹ بھی ڈاکیا تقسیم کرتا تھا ۔ڈاکیا بھی اس وقت تک زرلٹ نہیں دیتا تھا جب تک 'منہ میٹھا 'نہ کرلیتا۔
کہیں کہیں ڈاکیے کو بہت جذباتی انداز میں بھی لیا جاتا تھا مثلاً بے وقت اگر ڈاکیا تار( ٹیلی گرام) لے آتا تو لوگ اسے پڑھنے سے پہلے ہی گھبراجاتے کہ جانے کون سی بری خبر لایا ہے۔ اگر تار وصول کرنے والا ان پڑھ ہوتا تو ڈاکیا ہی اسے تار پڑھ کرسناتا ۔ خبر بری ہوتی توڈاکیا سنجیدہ ہوکر اسے پڑھتا اور خاموشی سے واپسی کے لئے مڑ جاتا لیکن اگر خبر کسی بہن ، بھائی، باپ یا کسی دوسرے رشتے دار کے آنے کی ہوتی یا رشتہ پکا ہونے کا پیغام ہوتا تو 'ڈاک بابو' اپنی 'فیس 'لئے بغیر نہ ٹلتے۔
دن چڑھتے ہی خاکی وردی اور پاؤں میں پشاوری چپل پہنے سردی ہو یا گرمی ڈاکیا خطوط، لفافوں کا تھیلہ اٹھائے ناک پر عینک لگائے ڈاکٹ بانٹنے کیلئے نکل پڑتا ۔محمد شریف جو خود محکمہ ڈاک میں تقریباً 40سال سروس کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے، بتاتے ہیں" تنخواہ کے علاوہ ان کو خاکی یونیفارم کے 60روپے اور پشاوری چپل کے 40روپے سالانہ ملتے تھے ۔سال میں دو یونیفارم بھی محکمہ کے ذمے تھیں۔ عیدالفطر ، عیدالاضحی اوردوسرے تہواروں پر ڈاکیے کو خدمات کا خصوصی معاوضہ عیدی کے طور پر دیا جاتا تھا۔ اس دور میں بڑی "ٹور"ہواکرتی تھی ہم ڈاکیوں کی۔
وہ گردش زمانہ اور گزرے ہوئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر کر کہتے ہیں:" اب زمانہ بدل گیا ہے ۔۔ اب نہ خاکی وردی رہی نہ امتحانی رزلٹ ہی ڈاک سے آتا ہے۔ اب موبائل فون ہے، انٹرنیٹ ہے ، چیٹنگ ہے، ویب کیم ہے ۔ منی آرڈر کی جگہ ہنڈی، فارن ایکسچینج اور منی ٹرانسفر کمپنیوں نے لے لی ۔خط کی جگہ ای میل آگیا ہے، سو ڈاکئے کا انتظار کون کرے۔ اب تو معاشرے سے ڈاکیے کا روایتی کردار بھی ختم ہوگیا ہے"