مجبوری میں چوری و ڈاکہ ڈالنے کے لیے فتوے کا تقاضا

مجبوری میں چوری و ڈاکہ ڈالنے کے لیے فتوے کا تقاضا

جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم نے کہا کہ ان لوگوں کو تو اُنھوں نے ٹال دیا کیونکہ اگر ایسی اجازت یا فتویٰ دے دیا جاتا ہے توپھر ریاست کے اندر افراتفری مچ جائے گی اور ، کوئی قانون نہیں رہے گا۔لیکن ان کے بقول یہ ارباب اختیار کے لیے سوچ کا مقام ہے کہ لوگ جب اس نہج تک پہنچ جائیں گے تو پھر تباہی و بربادی ہی منتظر ہوا کرتی ہے۔”حکمران اپنی شاہ خرچیاں کم کریں، پرتعیش انداز زندگی کو بدلیں اور عوام کا سوچیں۔“

طبقاتی تقسیم ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی ۔ فطرت نے تو اس تقسیم میں توازن رکھا ہے مگر انسان دوسرے انسان کے لیے ایسے حالات پیدا کرتا جارہا ہے کہ یہ توازن سنگین حد تک بگڑتا جارہا ہے۔ دنیا میں اب بھی ایسے ممالک ہیں جہاں کروڑوں لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بہت سے افراد افلاس کی وجہ سے بھوکے سوتے ہیں۔

سرکاری اور غیر سرکاری جائزوں کے مطابق پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران یہ طبقاتی تقسیم اور غربت کی لکیر کے نیچے بسنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ مہنگائی کا شور ایسا ہے کہ اور کچھ سنائی نہیں دیتا۔ غیر مراعات یافتہ طبقے کی زندگی اب روٹی کمانے تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اسے اب زیست کا سامان کرنے کے لیے اور بھی کئی پل صراطوں سے گزرنا پڑتا ہے۔

بھوک، افلاس، مہنگائی، بدامنی، بجلی اور گیس کی بندش وکم یابی، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور۔ بے روزگای کے ہاتھوں دن رات کی چکی میں پسنے والا جب بن بتی کے کرائے کے مکان میں پہنچتا ہے جہاں چولہا تو نہیں البتہ منتظر بچوں کی آنکھوں میں بھوک کے الاؤ روشن ہوتے ہیں تو پھر اس میں اپنے اور اپنوں کے لیے زندگی چھین کر لانے کا غیر انسانی نفرت انگیز جذبہ سراٹھاتا ہے۔

مجبوری میں چوری و ڈاکہ ڈالنے کے لیے فتوے کا تقاضا

پاکستان میں شاید ہی کوئی دن ایسے گزرتا ہو جب پریشان حال عوام کی کلفتوں کی کہانیاں سننے کا ناملیں۔ مگر حالیہ دنوں میں اس صورت حال نے ایک تشویش ناک رُخ اختیار کیا ہے جس کا یقینا کسی بھی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور جو ملک میں صاحب اقتدار طبقے کے لیے کسی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر اورقومی معیشت کی شہ رگ کہلانے والے کراچی میں پریشان حال سینکڑوں مزدوروں اور محنت کشوں نے ایک معروف دینی مدرسے جامعہ بنوریہ سے رابطہ کر کے وہاں کے علماء سے” حالت مجبوری میں چوری و ڈاکہ“ ڈالنے سے متعلق فتوے کا تقاضہ کیا۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مہتمم اعلیٰ مفتی محمد نعیم اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رواں ماہ ان کے پاس فتوے کی درخواست لے کر آنے والے معاشی بدحالی کاشکار مزدور کراچی کے صنعتی علاقے میں کام کرتے ہیں۔

مفتی صاحب نے مزدوروں کے الفاظ کو دہراتے ہوئے کہا کہ ”قرآن میں آیا ہے کہ آدمی حالت مجبوری میں سور(اسلام میں حرام) بھی کھا سکتا ہے۔ تو ہمیں اس بات کی اجازت دیجئے کہ ہم اپنے مل مالکان کی چوری کریں۔ ان کی گاڑیاں، موبائیل اور مختلف چیزیں اور پھر اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔“

مفتی محمد نعیم

مفتی نعیم نے کہا کہ ان لوگوں کو تو اُنھوں نے ٹال دیا کیونکہ اگر ایسی اجازت یا فتویٰ دے دیا جاتا ہے توپھر ریاست کے اندر افراتفری مچ جائے گی اور ، کوئی قانون نہیں رہے گا۔لیکن ان کے بقول یہ ارباب اختیار کے لیے سوچ کا مقام ہے کہ لوگ جب اس نہج تک پہنچ جائیں گے تو پھر تباہی و بربادی ہی منتظر ہوا کرتی ہے۔”حکمران اپنی شاہ خرچیاں کم کریں، پرتعیش انداز زندگی کو بدلیں اور عوام کا سوچیں۔“

فتویٰ مانگنے کے لیے آنے والوں میں ایک شخص عبدالعزیز نے بتایا کہ وہ اپنی پانچ بچیوں اور چار بچوں کے ساتھ کرائے کے ایک مکان میں رہتا ہے ۔”مزدوری کرتا ہوں جو کبھی ملتی ہے اور کبھی نہیں۔ مہنگائی کے باعث خرچے پورے نہیں ہوتے، صرف ایک لڑکے کو بمشکل میٹرک تک پڑھا سکا ہوں اور اب اسے ایک دکان پر ملازمت دلائی ہے۔“

ایسے ہی ایک شخص محمد صفدرکا کہنا تھا کہ مفتی صاحب نے ہمیں اپنے پاس کام دے دیا ہے مگر ہمارے سوال کا جواب نہیں دیا۔”حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ کوئی دوسرا راستہ سمجھ نہیں آتا۔ ہمیں چوری کی اجازت دیں یا خودکشی کی۔“

سپریم کورٹ کے وکیل اور انسانی حقوق کے لیے ایک سرگرم کارکن ضیا اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے حالات کے پیش نظر کسی غیر قانونی اقدام کی اجازت بہر حال کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔

”غربت تو بہت سے لوگوں کو درپیش ہے مگر ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ وہ ڈاکے ماریں کیونکہ اس کی کوئی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔مگر یہ صورتحال گھمبیرضرور ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس اضطراب پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرے، ورنہ ایسے لوگ ہی دہشت گردوں اور مختلف مافیا کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔“