پاناما پیپرز نامی دستاویزات میں نام آنے کے بعد پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف کے اہل خانہ نے پیر کو اپنی ’’آف شور یعنی بیرون ملک کمپنیوں‘‘ کی ملکیت کا دفاع کیا ہے۔
پاناما کی لا فرم موساک فونسیکا میں نامعلوم ذرائع نے واشنگٹن میں قائم انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نامی ایک تنظیم کو فرم کی ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات فراہم کیں، جن سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے طاقتور ترین افراد نے اپنا پیسا بیرون ملک بھیج رکھا ہے۔
یہ فرم ان افراد کو پیسے کی بیرون ملک سرمایہ کاری میں معاونت فراہم کرتی تھی۔
ان افراد میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں، بیٹی مریم نواز کے علاوہ دو بیٹوں حسن اور حسین نواز کے نام شامل ہیں۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ بیرون ملک کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیداد کے مالک ہیں۔
آئی سی آئی جے نے اتوار کو اپنی رپورٹ آن لائن شائع کرنے سے پہلے کئی ماہ تک ان دستاویزات کا مطالعہ کیا تھا۔
اس انکشاف کے بعد حزب اختلاف کے رہنما عمران خان نے پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی فوری طور پر پاکستان میں تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔
’’میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر فرانس، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک میں تحقیقات شروع ہیں تو پاکستان میں تحقیقات آغاز کیوں نہیں ہوا۔‘‘
عمران خان نے پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے ’نیب‘ سے کہا کہ وہ فوری طور پر اس بارے میں اپنا کام شروع کرے۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اگر عمران خان چاہیں تو اس معاملے پر کسی بھی عدالت میں جا سکتے ہیں۔
’’اگر اس میں ہمارے حوالے سے کوئی بدعنوانی ہے تو عمران خان صاحب کو کس نے روکا ہے، وہ جائیں بین الاقوامی عدالتوں میں جا سکتے ہیں۔۔۔۔ پاکستان میں نیب کے پاس کے جا سکتے ہیں۔‘‘
وزیراطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ ان دستاویزات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے بیرون ملک کوئی اثاثے نہیں ہیں۔
پرویز رشید نے وزیراعظم نواز شریف کے دونوں بیٹوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
’’کوئی غیر قانونی کام اُن بچوں نے نہیں کیا۔ اُن کا ہر اثاثہ قانون کے مطابق ہے۔۔۔ وہ دونوں بچے اپنے ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں اس لیے اُس میں لاقانونیت نہیں ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے پاکستان نے نجی ٹیلی ویژن چینلز سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی لندن میں جائیداد اور بیرون ملک کمپنیوں کو چھپایا ہے۔
حسین نواز کا کہنا تھا کہ یہ برطانوی اور دیگر ممالک کے قوانین کے عین مطابق ہے اور یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ قانونی طریقے غیر ضروری ٹیکسوں سے بچا جا سکے۔
’’ان کمپنیوں کو استعمال کرنے کی وجہ قانون کے مطابق ٹیکس مینجمنٹ ہے۔‘‘
آئی سی آئی جے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ دنیا بھر سے 140 سیاستدانوں اور سرکاری عہدیداروں کی آف شور یعنی بیرون ملک کمپنیاں موجود ہیں۔ ان میں 12 موجودہ یا سابق عالمی رہنما شامل ہیں جن میں پاکستان اور آئس لینڈ کے وزرائے اعظم، یوکرین اور ارجنٹینا کے صدور اور سعودی عرب کے بادشاہ شامل ہیں۔
ان 140 میں متعدد ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کے روسی صدر ولادیمر پوتن سے قریبی تعلقات ہیں۔ روزنامہ ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق صدر پوتن کے دوستوں اور رفقا نے بیرون ملک کمپنیوں کے پیچیدہ نیٹ ورک کے ذریعے دو ارب ڈالر بیرون ملک بھجوائے۔
اخبار کے مطابق اگرچہ صدر پوتن کا نام ان کمپنیوں کے ریکارڈ میں کہیں ظاہر نہیں ہوتا مگر ان کے دو قریبی دوستوں کا نام اس فہرست میں شامل ہیں۔
ان میں ان 33 کمپنیوں اور افراد کے نام بھی موجود ہیں جنہیں امریکی حکومت نے غلط کاریوں مثلاً میکسیکو کے منشیات فروشوں اور دہشت گرد تنظیموں یا شمالی کوریا جیسے خودسر ملکوں سے کاروبار کرنے پر بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بڑے بینک ٹیکس سے بچنے کے لیے بیرون ملک کمپنیوں کو بنانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
اپنے گاہکوں کے لیے 500 سے زائد بینکوں، ان کے ذیلی اداروں اور ان کی شاخون نے موساک فونسیکا کے ذریعے 15 ہزار بیرون ملک کمپنیاں بنائی ہیں۔
تاہم پاناما میں قائم موساک فونسیکا نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ وہ دنیا کے مالی قوائد کی مکمل پابندی کرتی ہے۔ اس نے کہا کہ اپنے 40 سالہ آپریشنز کے دوران اس پر کبھی مجرمانہ سرگرمی کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔