اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری نے بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے کی ایک وجہ ان اداروں میں ضرورت سے زائد ملازمین کو فارغ کرنے جیسے سیاسی اعتبار سے مشکل اقدامات سے بچنا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان نے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت معیشت کی بحالی کے لیے حکومت کو خسارے سے دوچار قومی اداروں میں اصلاحات کرنا لازمی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری کی طرف سے رواں ہفتے 31 قومی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں نجکاری کمشن کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس پر کام فوری طور پر شروع کرے تاہم اس تمام عمل میں ان اداروں کے ملازمین کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے کی ایک وجہ ان اداروں میں ضرورت سے زائد ملازمین کو فارغ کرنے جیسے سیاسی اعتبار سے مشکل اقدامات سے بچنا ہے۔
’’پی آئی اے میں اب ہر جہاز کے لیے 500 بندوں کا اسٹاف ہے اور اسی شرح دنیا میں کہیں نہیں۔ پھر کچھ کی نجکاری کا مقصد اس ادارے کو چلانے کے لیے نجی شعبے سے پیسے کمانا ہے یا ان کے کریڈٹ کو کنٹرول کرنا ہے۔‘‘
حال ہی میں قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے 26 فیصد حصص کی نجکاری کے اعلان پر حزب اختلاف اور بعض ماہرین نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پہلے اس کے خسارے کو دور کرنے کے بعد نجکاری کا سوچا جائے۔
عابد سلہری کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان میں نجکاری کے تجربات کامیاب نہیں رہے بلکہ بیشتر ادارے یا تو بند ہو گئے یا پھر انہیں مزید خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
’’صرف پی ٹی سی ایل کی نجکاری کامیاب رہی مگر وہ بھی فائدہ مند ادارہ تھا جب اس کی نجکاری کی گئی۔ ورنہ زیادہ تر میں تو خریدنے والوں کی دلچسپی ان اداروں کی پراپرٹی میں تھی اور وہ ٹھپ ہوگئے۔‘‘
تحریک انصاف کے قانون ساز اسد عمر کہتے ہیں کہ کسی واضح حکمت عملی کے بغیر نجکاری ملک کی معیشت کے لیے شدید نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
’’دیکھیں نا کہ کوئی سیٹھ صبح اٹھے اور ایسے ہی فیکٹری کوئی نیا کام شروع کردے تو وہ چھ ماہ میں بند ہو جائی گی۔ پلاننگ کمیشن میں چیزیں جائیں۔ کیا وہ صرف رپورٹ شائع کرنے یا فیتہ کاٹنے کے لیے ہے۔ پارلیمان میں یہ چیزیں زیر بحث آئیں۔‘‘
بعض سرکاری عہدیداروں کے مطابق سابقہ دور میں مشترکہ مفادات کونسل ان 31 اداروں کی نجکاری کی منظوری دے چکی ہے۔ اقتصادی ماہرین اور حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کئی قومی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری کی طرف سے رواں ہفتے 31 قومی اداروں کی نجکاری کا فیصلہ بھی اسی تناظر میں کیا گیا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں نجکاری کمشن کو ہدایت دی گئی کہ وہ اس پر کام فوری طور پر شروع کرے تاہم اس تمام عمل میں ان اداروں کے ملازمین کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت کے اس فیصلے کی ایک وجہ ان اداروں میں ضرورت سے زائد ملازمین کو فارغ کرنے جیسے سیاسی اعتبار سے مشکل اقدامات سے بچنا ہے۔
’’پی آئی اے میں اب ہر جہاز کے لیے 500 بندوں کا اسٹاف ہے اور اسی شرح دنیا میں کہیں نہیں۔ پھر کچھ کی نجکاری کا مقصد اس ادارے کو چلانے کے لیے نجی شعبے سے پیسے کمانا ہے یا ان کے کریڈٹ کو کنٹرول کرنا ہے۔‘‘
حال ہی میں قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے 26 فیصد حصص کی نجکاری کے اعلان پر حزب اختلاف اور بعض ماہرین نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پہلے اس کے خسارے کو دور کرنے کے بعد نجکاری کا سوچا جائے۔
عابد سلہری کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان میں نجکاری کے تجربات کامیاب نہیں رہے بلکہ بیشتر ادارے یا تو بند ہو گئے یا پھر انہیں مزید خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
’’صرف پی ٹی سی ایل کی نجکاری کامیاب رہی مگر وہ بھی فائدہ مند ادارہ تھا جب اس کی نجکاری کی گئی۔ ورنہ زیادہ تر میں تو خریدنے والوں کی دلچسپی ان اداروں کی پراپرٹی میں تھی اور وہ ٹھپ ہوگئے۔‘‘
تحریک انصاف کے قانون ساز اسد عمر کہتے ہیں کہ کسی واضح حکمت عملی کے بغیر نجکاری ملک کی معیشت کے لیے شدید نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
’’دیکھیں نا کہ کوئی سیٹھ صبح اٹھے اور ایسے ہی فیکٹری کوئی نیا کام شروع کردے تو وہ چھ ماہ میں بند ہو جائی گی۔ پلاننگ کمیشن میں چیزیں جائیں۔ کیا وہ صرف رپورٹ شائع کرنے یا فیتہ کاٹنے کے لیے ہے۔ پارلیمان میں یہ چیزیں زیر بحث آئیں۔‘‘
بعض سرکاری عہدیداروں کے مطابق سابقہ دور میں مشترکہ مفادات کونسل ان 31 اداروں کی نجکاری کی منظوری دے چکی ہے۔ اقتصادی ماہرین اور حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کئی قومی اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے۔