پاکستان نے پیر کو بنگلہ دیش کے قائم مقام ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے ڈھاکہ حکومت کے اسلام آباد کے بارے میں ’’بے بنیاد دعوؤں‘‘ کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنا موقف گزشتہ ہفتے ایک مراسلے کے ذریعے پاکستان کو پہنچایا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش میں جنگی جرائم یا ظلم و ستم میں ملوث ہونے کی ایما کو بھی مسترد کرتا ہے۔ بیان کے مطابق اس الزام کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
یاد رہے کہ 22 نومبر کو بنگلہ دیش میں حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو جنگی جرائم کے الزام میں پھانسی کی سزا دیے جانے پر پاکستان نے اپنی گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا تھا کہ پاکستان 1971ء کے واقعات کے تناظر میں بنگلہ دیش میں جاری متعصب عدالتی کارروائی اور اس ضمن میں عالمی برادری کے ردعمل کو بھی دیکھ رہا ہے۔
پاکستان کے اس بیان پر بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے ڈھاکہ میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر کو طلب کرکے سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا تھا۔
اس موقع پر بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ میزان الرحمن نے اپنی حکومت کی جانب سے ایک احتجاجی مراسلہ پاکستانی ہائی کمشنر کے حوالے کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ملزمان کی حمایت میں بیان دے کر ایک بار پھر دونوں ملکوں کی علیحدگی کے دوران پیش آنے والے جنگی جرائم میں اپنے براہِ راست ملوث ہونے کا اقرار کیا ہے۔
تاہم پاکستان نے مراسلے کے مندرجات کو مسترد کر دیا ہے۔
ڈھاکا کی ایک جیل میں 22 نومبر کو علی الصبح جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما علی احسن محمد مجاہد اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے رہنما صلاح الدین قادر چودھری کو پھانسی دی گئی تھی۔
ان دونوں پر 1971ء کی جنگ کے دوران نسل کشی اور دانشوروں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام تھا اور خصوصی ٹربیونل نے انھیں 2013ء میں سزائے موت سنائی تھی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ 1974 میں طے پانے والے سہ فریقی معاہدے کے تحت بنگلہ دیش نے کہا تھا کہ وہ رحمدلی کے اقدام کے طور پر ایسے مقدمات کی پیروی نہیں کرے گا۔
9 اپریل 1974ء کو پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق دونوں ملکوں نے 1971ء کے واقعات کو فراموش کر کے مفاہمت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم بنگلہ دیش کا طویل عرصہ سے مؤقف رہا ہے کہ پاکستان جنگ کے دوران ہونے والے واقعات پر اس سے معافی مانگے۔
پاکستان میں کچھ حلقوں میں دفتر خارجہ اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سے بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر رد عمل کو غیر متناسب قرار دیا تھا۔
ملک کی معروف وکیل عاصمہ جہانگیر سمیت انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کو ہر جگہ بشمول اندرون ملک منصفانہ اور غیر جانبدار عدالتی کارروائی کی حمایت کرنی چاہیئے۔