پاکستان میں پرتشدد واقعات کی بھرپور مذمت

وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا کہ توہین آمیز فلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں شرپسند اور جرائم پیشہ عناصر بھی شامل ہو گئے تھے۔
گستاخانہ فلم کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں جمعہ کو ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں 23 افراد کی ہلاکت کے بعد ہفتہ کو حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے۔

ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں لگ بھگ 200 افراد زخمی بھی ہوئے جب کہ بڑی تعداد میں املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا جن میں سینما گھر، گاڑیوں کے شو روم، بنیکوں کی عمارتیں بھی شامل ہیں۔

مظاہرین نے جمعہ کی شب صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع مردان میں ایک چرچ کو بھی نذر آتش کر دیا تھا۔

پاکستان میں سیاسی، مذہبی اور سماجی حلقوں کی جانب سے پرتشدد احتجاج خاص طور پر سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران توڑ پھوڑ کرنے والے درجنوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان کے خلاف شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔

وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے ہفتہ کو اسلام آباد کے ایک سرکاری اسپتال میں زیر علاج زخمیوں سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ توہین آمیز فلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں شرپسند اور جرائم پیشہ عناصر بھی شامل ہو گئے تھے۔

’’جتنی بھی ویڈیو ہمارے پاس موجود ہیں ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ایسے لوگوں کی شناخت کی جا رہی ہے جن کے پاس پستول اور بندوقیں تھیں۔۔۔۔ سب کے گھر تک پہنچیں گے اور انھیں انصاف کے کہٹرے میں لائیں گے۔‘‘

وفاقی دارالحکومت حکومت کے علاوہ کراچی، لاہور اور پشاور میں امریکی سفارتی دفاتر کی طرف جانے والے راستوں پر سکیورٹی کے انتظامات بدستور سخت ہیں اور پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری وہاں تعینات ہے۔

پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پرتشدد مظاہروں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جلاؤ گھیراؤ اور املاک کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔

’’عشق رسول کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کے نام پر لوگوں کی املاک کو تباہ کردیں، بے گناہ انسانیت کا قتل عام کر دیں۔ مجھے بڑے افسوس اور معذرت سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ جب یہ واقعات ہو رہے تھے تو ہمیں پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت کہیں نظر نہیں آئی۔‘‘

مظاہروں میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے بارے میں ہفتے کو پاکستانی اخبارت میں خصوصی اداریوں میں بھی پرتشدد واقعات پر تنقید کی گئی۔


گاڑی پر حملہ آور ہوتے مشتعل مظاہرین

موقر انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ہڑتال کا علان کرنے والے چند عناصرپر ان پرتشدد واقعات کا الزام لگا کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے بلکہ ان عناصر پر قابو پانا ان کا فرض تھا۔

’’پرتشدد واقعات نے کسی بھی صورت دنیا بھر کے مسلمالوں کے مقصد کو آگے نہیں بڑھایا بلکہ پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جہاں خون کے پیاسے گروہ سڑکوں پر کھلے عام پھرتے ہیں۔‘‘

حکومت پاکستان نے بھی اپنے طور پر جمعہ کا دن ’’یوم عشق رسول‘‘ کے طور پر منا کر گستاخانہ فلم کے خلاف پرامن احتجاج کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے واشنگٹن میں اپنی ہم منصب حنا ربانی کھر سے ملاقات میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے ملک میں امریکی سفارتی دفاتر اور عملے کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے انتظامات کو سراہا۔