عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ دلائل کی روشنی میں یہ بات ثابت نہیں ہوسکی کہ طاہر القادری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے دائر درخواست مسترد کر دی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو سماعت کا آغاز کرتے ہوئے طاہر القادری کی دوہری شہریت کی بنیاد پر ان سے کہا کہ وہ عدالت میں یہ ثابت کریں کہ انہوں نے درخواست نیک نیتی کی بنا پر دائر کی اور کمیشن کو تحلیل نہ کرنے سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔
جس پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پاکستانی آئین انہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ عدالت اعظمیٰ میں درخواست دائر کریں۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ ان کی درخواست سننے کی بجائے ان کی پاکستان سے وفاداری پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بینچ کو چیف جسٹس کی وہ تصویر بھی دکھائی جس میں انھوں نے سابق فوجی صدر سے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔
چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے طاہر القادری نے کہا ’’آپ نے پہلے پاکستانی آئین کے تحت حلف اٹھایا ایک وفاداری دی اور دوسری وفاداری (آپ نے) پرویز مشرف کی آمریت کا حلف لیا۔ وفاداری تقسیم کی۔ اگر آپ کے دو حلف لینے سے آپ کی وفادرای مشکوک نہیں ہوتی تو میری کیسے ہوتی ہے۔‘‘
عدالتی کارروائی میں طاہر القادری کی طرف سے جارحانہ رویے کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر انھیں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن عدالت اس پر تحمل کا اظہار کر رہی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک منہاج القران کے سربراہ نہ اپنی نیک نیتی ثابت کرسکے اور نہ ہی عدالت کو قائل کر سکے کہ ان کی درخواست آئین میں درج بنیادی حقوق کے پیمانے پر پورا اترتی ہے۔
سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں پروفیسر طاہر القادری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سیاسی فیصلہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سماعت کے دوران عدالت نے ان کے دلائل کو توجہ سے نہیں سنا۔
طاہر القادری پاکستان کے علاوہ کینیڈا کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور گزشتہ دو دن سے سماعت کے دوران ان کی دوہری شہریت ہی زیادہ تر موضوع بحث رہی۔
معروف قانون دان عابد حسن منٹو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طاہر القادری کی دوہری شہریت پر ان کی ملک سے وفاداری پر سوالات اٹھانا غیر ضروری تھا کیونکہ پاکستانی آئین انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوہری شہریت رکھیں۔
تاہم انہوں نے الیکشن کمیشن کی تحلیل سے متعلق درخواست کے خارج ہونے کی حمایت کی۔
’’اس درخواست کو تو پہلے ہی خارج کر دینا چاہیئے تھا کیونکہ یہ اس وقت دائر کی جب انتخابات بالکل قریب آگئے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کر دیا جائے۔‘‘
سپریم کورٹ بار ایسویشن کی سابق صدر اور حقوق انسانی کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ طاہر القادری کی درخواست پر عدالت کے ردعمل کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔
’’عدالت اعظمیٰ میں اس سے پہلے مفاد عامہ کی درخواستوں کا مینا بازار لگا ہوتا تھا جس کی مرضی آئے یہاں درخواست لیے آ جاتا تھا تو اگر اس پیمانے پر دیکھا جائے تو طاہرالقادری کی درخواست بھی منظور ہونی چاہیئے تھی۔‘‘
مگر انہوں نے عدالت کی جانب سے اس نئے رویے کا خیر مقدم کرتے ہوئے توقع کی کہ اس کے بعد عدالت عظمیٰ میں مفاد عامہ اور حقوق انسانی سے متعلق شکایات سننے کے لیے کوئی معیار طے کیا جائے گا۔
طاہر القادری کی طرف سے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے مطالبے سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس سے ملک میں انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس عدالتی فیصلے کے بعد بظاہر یہ خدشات دم توڑ گئے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو سماعت کا آغاز کرتے ہوئے طاہر القادری کی دوہری شہریت کی بنیاد پر ان سے کہا کہ وہ عدالت میں یہ ثابت کریں کہ انہوں نے درخواست نیک نیتی کی بنا پر دائر کی اور کمیشن کو تحلیل نہ کرنے سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔
جس پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پاکستانی آئین انہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ وہ عدالت اعظمیٰ میں درخواست دائر کریں۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ ان کی درخواست سننے کی بجائے ان کی پاکستان سے وفاداری پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بینچ کو چیف جسٹس کی وہ تصویر بھی دکھائی جس میں انھوں نے سابق فوجی صدر سے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔
چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے طاہر القادری نے کہا ’’آپ نے پہلے پاکستانی آئین کے تحت حلف اٹھایا ایک وفاداری دی اور دوسری وفاداری (آپ نے) پرویز مشرف کی آمریت کا حلف لیا۔ وفاداری تقسیم کی۔ اگر آپ کے دو حلف لینے سے آپ کی وفادرای مشکوک نہیں ہوتی تو میری کیسے ہوتی ہے۔‘‘
عدالتی کارروائی میں طاہر القادری کی طرف سے جارحانہ رویے کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر انھیں توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن عدالت اس پر تحمل کا اظہار کر رہی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک منہاج القران کے سربراہ نہ اپنی نیک نیتی ثابت کرسکے اور نہ ہی عدالت کو قائل کر سکے کہ ان کی درخواست آئین میں درج بنیادی حقوق کے پیمانے پر پورا اترتی ہے۔
سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں پروفیسر طاہر القادری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سیاسی فیصلہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سماعت کے دوران عدالت نے ان کے دلائل کو توجہ سے نہیں سنا۔
طاہر القادری پاکستان کے علاوہ کینیڈا کی شہریت بھی رکھتے ہیں اور گزشتہ دو دن سے سماعت کے دوران ان کی دوہری شہریت ہی زیادہ تر موضوع بحث رہی۔
معروف قانون دان عابد حسن منٹو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طاہر القادری کی دوہری شہریت پر ان کی ملک سے وفاداری پر سوالات اٹھانا غیر ضروری تھا کیونکہ پاکستانی آئین انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوہری شہریت رکھیں۔
تاہم انہوں نے الیکشن کمیشن کی تحلیل سے متعلق درخواست کے خارج ہونے کی حمایت کی۔
’’اس درخواست کو تو پہلے ہی خارج کر دینا چاہیئے تھا کیونکہ یہ اس وقت دائر کی جب انتخابات بالکل قریب آگئے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو تحلیل کر دیا جائے۔‘‘
’’عدالت اعظمیٰ میں اس سے پہلے مفاد عامہ کی درخواستوں کا مینا بازار لگا ہوتا تھا جس کی مرضی آئے یہاں درخواست لیے آ جاتا تھا تو اگر اس پیمانے پر دیکھا جائے تو طاہرالقادری کی درخواست بھی منظور ہونی چاہیئے تھی۔‘‘
مگر انہوں نے عدالت کی جانب سے اس نئے رویے کا خیر مقدم کرتے ہوئے توقع کی کہ اس کے بعد عدالت عظمیٰ میں مفاد عامہ اور حقوق انسانی سے متعلق شکایات سننے کے لیے کوئی معیار طے کیا جائے گا۔
طاہر القادری کی طرف سے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے مطالبے سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس سے ملک میں انتخابات التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس عدالتی فیصلے کے بعد بظاہر یہ خدشات دم توڑ گئے ہیں۔