پاکستان کے شمالی مغربی ضلع کوہستان میں پہاڑی تودے تلے دبے 23 افراد کو نکالنے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکیں جس کے بعد حکام نے کئی روز سے جاری امدادی سرگرمیوں کو روکتے ہوئے مقامی عمائدین اور مذہبی رہنماؤں کے مشورے سے اس جگہ کو ان افراد کی "قبر" قرار دے دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والی بارشوں اور پہاڑی تودے گرنے سے ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے "پی ڈی ایم اے" کے مطابق کوہستان میں 37، شانگلہ میں 17، سوات میں 13، دیر بالا میں چھ اور مردان میں تین افراد ہلاک ہوئے جب کہ بنوں، بٹگرام، چترال اور دیر زیریں میں دو، دو ہلاکتیں ہوئیں۔
علاوہ ازیں پشاور، مانسہرہ، مالاکنڈ، چارسدہ، بنیر اور ایبٹ آباد میں بارشوں کے باعث اموات ہوئی ہیں جب کہ 61 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے "این ڈی ایم اے" کے مطابق خیبر پختونخوا میں ایک ہزار کے لگ بھگ مکانات کو نقصان پہنچا جب کہ بڑے رقبے پر کھڑی فصلوں کے علاوہ سڑکیں اور پل بھی حالیہ بارشوں سے متاثر ہوئے۔
پاکستان اور چین کو ملانے والی شاہراہ قراقرم بھی پہاڑی تودے گرنے سے متعدد مقامات پر بند ہے جسے کھولنے کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
امدادی کاموں میں سول انتظامیہ کے علاوہ پاکستانی فوج بھی حصہ لے رہی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق گلگت اور اسکردو میں 175 پہاڑی تودے گر چکے ہیں۔
بیان کے مطابق فوج کے 600 اہلکار شعبہ انجینیئرنگ کی معاونت کرتے ہوئے سڑکوں کی بحالی کے کام میں مصروف ہیں۔ اب تک شاہراہ قراقرم کے 473 کلومیٹر حصے کو صاف کیا جا چکا ہے۔
علاوہ ازیں متاثرہ علاقوں میں فوج نے خوراک اور اشیائے ضروری سمیت دیگر امدادی سامان بھی پہنچانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
مارچ میں بھی شدید بارشوں کے دو سلسلوں کے دوران پاکستانی کے ان ہی علاقوں میں 120 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ حالیہ شدید بارشوں کا سلسلہ تو ختم ہو گیا ہے لیکن آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک کے بالائی علاقوں میں بارشوں کا امکان ہے۔