سب سے زیادہ جانی نقصان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہوا جہاں موسلادھار بارشوں سے ساڑھے سات سو گھروں کو نقصان بھی پہنچا ہے
آفات کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے قائم قومی ادارے نے پاکستان کے بالائی علاقوں میں حالیہ مون سون بارشوں سے اب تک 24 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین ظفر اقبال قادر نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موسلادھار بارشوں سے 750 گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ہلاکتیں پاکستانی کشمیر کے ضلع باغ میں مکانات کی چھتیں گرنے سے ہوئیں۔
پاکستانی کشمیر میں آفات سے نمٹنے کے لیے سرگرم ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر راجہ سجاد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کشمیر کے اس خطے میں لگ بھگ ایک ہزار خاندانوں کو مجبوراً محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔
’’کشمیر میں 17 افراد ہلاک اور نو زخمی ہوئے ہیں ... یہ ابتدائی رپورٹس ہیں اور مزید معلومات آ رہی ہیں۔‘‘
این ڈی ایم اے کے چیئرمین ظفر اقبال قادر کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع مانسہرہ میں ایک مکان کی چھت گرنے سے چھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ نوشہرہ میں سیلابی ریلے میں تین افراد بہہ گئے۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ آئندہ دو روز کے دوران صوبے کے بعض علاقے سیلابی ریلوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
’’کوہاٹ، بنوں، پشاور، مردان اور ہزارہ ڈویژن میں مون سون کی تیز بارشوں سے سیلاب متوقع ہے۔ اس کے علاوہ دریائے کابل، سوات، کرم اور ان سے ملحقہ ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘
ظفر اقبال قادر نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں دریائے چناب اور راوی میں نچلے درجے کے سیلاب کے باعث ان کے کنارے آباد خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اُن کے بقول کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں بھی مکمل کر لی گئی ہیں۔
’’مون سون کی موسلادھار بارشوں سے اگر درمیانے درجے کا سیلاب آیا تو اس میں کسی بڑے نقصان کا احتمال نہیں ہے۔ آفات سے نمٹنے کے قومی و صوبائی ادارے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ان کے پاس وسائل بھی ہیں اور جونہی کوئی مسئلہ ہوا تو وہ امدادی کارروائیوں کے لیے تیار ہیں۔‘‘
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال پاکستان میں مون سون بارشیں معمول سے کم ہوئیں جس سے آبی ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی آئی۔
لیکن ظفر اقبال قادر کہتے ہیں کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران بارشوں سے ملک کے دونوں بڑے ڈیموں تربیلا اور منگلا میں پانی کے ذخائر میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کو 2010ء میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہوا تھا، جس سے ملک کا 20 فیصد رقبہ زیر آب آ گیا تھا۔ اس تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً دو کروڑ متاثر ہوئے تھے۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین ظفر اقبال قادر نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں موسلادھار بارشوں سے 750 گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ہلاکتیں پاکستانی کشمیر کے ضلع باغ میں مکانات کی چھتیں گرنے سے ہوئیں۔
پاکستانی کشمیر میں آفات سے نمٹنے کے لیے سرگرم ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر راجہ سجاد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کشمیر کے اس خطے میں لگ بھگ ایک ہزار خاندانوں کو مجبوراً محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔
’’کشمیر میں 17 افراد ہلاک اور نو زخمی ہوئے ہیں ... یہ ابتدائی رپورٹس ہیں اور مزید معلومات آ رہی ہیں۔‘‘
این ڈی ایم اے کے چیئرمین ظفر اقبال قادر کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع مانسہرہ میں ایک مکان کی چھت گرنے سے چھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ نوشہرہ میں سیلابی ریلے میں تین افراد بہہ گئے۔
اُنھوں نے متنبہ کیا کہ آئندہ دو روز کے دوران صوبے کے بعض علاقے سیلابی ریلوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
’’کوہاٹ، بنوں، پشاور، مردان اور ہزارہ ڈویژن میں مون سون کی تیز بارشوں سے سیلاب متوقع ہے۔ اس کے علاوہ دریائے کابل، سوات، کرم اور ان سے ملحقہ ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘
ظفر اقبال قادر نے کہا کہ صوبہ پنجاب میں دریائے چناب اور راوی میں نچلے درجے کے سیلاب کے باعث ان کے کنارے آباد خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ اُن کے بقول کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں بھی مکمل کر لی گئی ہیں۔
’’مون سون کی موسلادھار بارشوں سے اگر درمیانے درجے کا سیلاب آیا تو اس میں کسی بڑے نقصان کا احتمال نہیں ہے۔ آفات سے نمٹنے کے قومی و صوبائی ادارے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ان کے پاس وسائل بھی ہیں اور جونہی کوئی مسئلہ ہوا تو وہ امدادی کارروائیوں کے لیے تیار ہیں۔‘‘
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال پاکستان میں مون سون بارشیں معمول سے کم ہوئیں جس سے آبی ذخائر میں تشویشناک حد تک کمی آئی۔
لیکن ظفر اقبال قادر کہتے ہیں کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران بارشوں سے ملک کے دونوں بڑے ڈیموں تربیلا اور منگلا میں پانی کے ذخائر میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان کو 2010ء میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہوا تھا، جس سے ملک کا 20 فیصد رقبہ زیر آب آ گیا تھا۔ اس تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور تقریباً دو کروڑ متاثر ہوئے تھے۔