بھارت کی باسمتی چاول کو اپنی مخصوص پیداوار قرار دلوانے کی کوشش، پاکستان کی مخالفت

چاول کے کھیت کا ایک منظر، فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کی طرف سے یورپی یونین میں باسمتی چاول کو جغرافیائی طور پر بھارت کے ساتھ مخصوص کرنے کی درخواست کی بھرپور مخالفت کرے گا۔

یاد رہے کہ یورپی یونین نے 11 ستمبر کو ایک اعلامیے میں بتایا تھا کہ نئی دہلی نے باسمتی چاول کو بھارت کی پیداوار قرار دینے کی درخواست دی ہے۔

پاکستان سمیت کئی دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز بھارت کی طرف سے جیوگرافگ انڈیکشین کے قواعد و ضوابط کے تحت باسمتی چاول کو اپنی پیدوار قرار دینے کے دعوے کے جواب میں آئندہ تین ماہ کے اندر اپنے اپنے مؤقف سے یورپی یونین کو آگاہ کر سکتے ہیں۔

عبدالرزاق داؤد نے پاکستان کے چاول برآمد کرنے والے پاکستانی تاجروں کے وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پاکستان بھارت کی طرف سے باسمتی چاول کو بھارتی پیدوار قرار دینے کے درخواست کی بھرپور مخالفت کرے گا تاکہ بھارت باسمتی کے لیے جیو گرافک انڈیکشن حاصل نہ کر سکے۔

چاول کے پودے کو کھڑے پانی میں بویا جاتا ہے۔

ایک ٹوئٹ میں مشیر تجارت نے باسمتی چاول کے پاکستانی برآمد کنندگان کو یقین دہانی کرائی کہ باسمتی چاول کی بطور پاکستانی پیداوار کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات اور کوششیں کی جائیں گی۔

یاد رہے کہ یورپی یونین کے جرنل میں 11 ستمبر کو شائع ہونے والے ایک اعلامیے کے مطابق بھارت نے یورپی یونین کو دی گئی درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ باسمتی چاول ایک طویل عرصے سے بھارتی پنجاب اور ہریانہ سمیت بھارت کی بعض شمال مغربی ریاستوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔

بھارت نے اپنے دعوے کے حق میں بعض تاریخی حوالے بھی پیش کیے ہیں۔ تاہم عالمی تجارتی تنظیم میں پاکستان کے سابق مندوب ڈاکٹر منظور احمد کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ بھارت باسمتی چاول سے متعلق اپنے دعوے کو صحیح ثابت کر سکے گا۔

'جیوگرافیکل انڈیکیشن کیا ہے'

ڈاکٹر منظور احمد کے بقول عام فہم زبان میں جیو گرافک انڈیکشن کسی بھی زرعی پیدوار یا کسی دیگر ایسی خاص پیداوار سے جڑی ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو کسی خاص جغرافیائی خطے سے مخصوص ہیں اور اس خطے کی پیداوار کو وہاں کی سوغات قرار دیا جاتا ہے۔

اُن کے بقول اسی طرح باسمتی چاول اپنی ایک خاص خوشبو اور ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے۔

ڈاکٹر منظور کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بعض علاقوں اور بھارت کے چند ایک علاقوں میں کاشت ہونے والے باسمتی چاول کو ان علاقوں سے مخصوص سمجھا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی پیداوار کے ساتھ جیوگرافیکل انڈیکیشن وابستہ ہو جاتی ہے اور اس کے لیے عالمی تجارتی تنظیم کے متعلقہ قواعد و ضوابط کے تحت مقامی سطح پر قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔

چاول کی فصل پک کر تیار ہو چکی ہے۔

پاکستانی برآمد کنندگان نے باسمتی چاول سے متعلق بھارتی دعوؤں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے باسمتی چاول کو صرف بھارتی پیدوار قرار دینے کی کوششیں اگر کامیاب ہوتی ہیں تو اس کی وجہ سے پاکستان کے باسمتی چاول کی بیرون ممالک تجارت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کی 'رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن' کے سابق سینئر وائس چیئرمین توفیق احمد کا کہنا ہے کہ باسمتی چاول کو بھارت کے ساتھ مخصوص کرنے کی نئی دہلی کی کوششوں کے کئی مضمرات ہو سکتے ہیں۔

ان کے بقول حالیہ برسوں میں بھارت کی باسمتی چاول کی برآمدات میں بوجوہ کمی آئی ہے لیکن ان کے بقول دوسری طرف پاکستانی چاول کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

توفیق احمد خان کا کہنا ہے کہ باسمتی چاول کو بھارت کی پیداوار کے طور پر جیوگرافیکل انڈیکشن کے قواعد و ضوابط کے تحت رجسٹر کرانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بھارت دنیا کو بتا سکے کہ اگر انہیں باسمتی چاول کی ضرورت ہے تو وہ صرف بھارت ہی فراہم کر سکتا ہے۔

'باسمتی چاول اور ہیر رانجھا کی لوک داستان'

بھارت نے باسمتی چاول کو اپنے ملک کی فصل قرار دینے کے حق میں بعض تاریخی حوالوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ کئی سو سال سے یہ بھارت میں کاشت کی جاتی رہی ہے۔

اس سلسلے میں بھارت نے پنجاب کے معروف شاعر وارث شاہ کی لکھی ہوئی پنجاب کی لوک داستان ہیر رانجھا کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں باسمتی چاول کا ذکر ملتا ہے۔ تاہم توفیق احمد کا کہنا ہے کہ اس لوک داستان کے مصنف وارث شاہ کا تعلق ان علاقوں سے ہے جو اس وقت پاکستان میں شامل ہیں۔

چاول کی تجارت سے وابستہ توفیق احمد کا مزید کہنا ہے کہ باسمتی چاول تاریخی طور پر ان علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے جو دریائے چناب اور دریائے راوی کے قریب واقع ہیں۔

کراچی کی ایک مارکیٹ میں چاول فروخت کے لیے رکھا ہے۔

اُن کے بقول اگرچہ باسمتی چاول بھارت کے بعض علاقوں میں ضرور کاشت ہوتا ہے لیکن اسے صرف بھارت کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں ہے۔

بھارت نے باسمتی چاول کو اپنی سوغات پیداوار ثابت کرنے کے لیے، آکسفورڈ ڈکشنری اور فرانسیسی زبان کی ڈکشنری کا حوالہ دیا ہے جس میں باسمتی چاول کو انڈین کہا گیا ہے۔ تاہم توفیق احمد کہتے ہیں کہ باتوں کا تعلق برِصغیر کی تقسیم سے پہلے سے ہے۔ اس لیے باسمتی کو بھارت کی پیداوار قرار دینا درست نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ باسمتی چاول کے بارے میں پاکستان کا مؤقف ٹھوس ہے اور یہ امکان کم ہے کہ بھارت باسمتی چاول کو اپنی جغرافیائی پیدوار قرار دلوانے میں کامیاب ہو سکے گا۔

کیا باسمتی چاول پاکستان اور بھارت کا مشترکہ ورثہ قرار دیا جا سکتا ہے؟

توفیق احمد کہتے ہیں کہ باستمی چاول کو جیوگرافیکل انڈیکشن کے پورپی یونین سے رجوع کرنے سے پہلے بھارت کو پاکستان سے بات کرنی چاہے تاکہ باسمتی چاول کو پاکستان اور بھارت کے مشترکہ ورثے کے طور پر رجسٹر کروایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس تجویز پر دونوں ملکوں کے درمیان تبادلۂ خیال بھی ہو چکا ہے۔

پاکستان میں ایک وسیع علاقے پر باسمتی چاول کاشت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بھارتی پنجاب، ہریانہ اور کئی دیگر شمالی ریاستوں میں باسمتی چاول کاشت ہوتا ہے۔

توفیق احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مل کر اپنے اپنے ہاں کاشت کیے جانے والے باسمتی چاول کو خطے کا مشترکہ ورثہ قرار دلوانے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی چاول کی برآمدات کا سالانہ حجم لگ بھگ تین ارب ڈالر ہے، جس میں روایتی اور غیر روایتی طریقے سے چاول کی برآمد بھی شامل ہے اور اس میں باستمی چاول کا حصہ لگ بھگ ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔