حکومت کی اتحادی مذہبی و سیاسی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے سیاست دانوں کو لب و لہجہ تبدیل کرنا ہوگا۔
اسلام آباد —
پاکستان کے پارلیمان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کی اکثریت نے وزیراعظم نواز شریف کے شدت پسندوں سے مذاکرات کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں قیام امن کے لیے مذاکرات کو ایک موقع دینے میں کوئی عار نہیں۔
مگر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد سید خورشید شاہ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بات چیت کی آڑ میں شدت پسند اپنی کارروائیوں میں تیزی نا لے آئیں۔
’’ہم آپ کی ان مجبوریوں کو سمجھتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعظم آپ کی کتنی مجبوریاں ہیں۔ کتنی رکاوٹیں ہیں جنھیں آپ پھلانگ نہیں سکتے۔ آپ بالکل مذاکرات کے لیے جائیں۔ مگر اس کا وقت ہونا چاہیئے۔ ایسا نا ہو کہ پھر یہ اتنا طول پکڑ لے اور لوگوں کو مایوس ہونا پڑے۔‘‘
گزشتہ سال ستمبر میں تمام سیاسی اور فوجی قیادت نے نواز شریف حکومت کو شدت پسندوں سے بات چیت شروع کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔ حکومت میں شامل عہدیداروں کی طرف سے متعدد بار شدت پسندوں سے رابطے کے اعلان کیے گئے مگر دوسری طرف سے ہمیشہ ان کی تردید کی گئی۔
نومبر میں ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ سے منسلک کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس سے شدت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات سبوتاژ ہوئے ہیں۔
مذاکرات کے لیے ٹیم کے اعلان سے دو روز قبل ہی وزیراعظم کی سربراہی میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں کے ایک اجلاس میں اکثریت نے شدت پسندوں کی کارروائیوں میں ایک بار پھر اضافے کے تناظر میں کارروائی کی حمایت کی تھی۔
کراچی کی ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینئیر رہنما فاروق ستار نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ نظریہ پاکستان، اس کی ثقافت اور لوگوں کے طرز زندگی کے تحفظ کے لیے خونریز دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا ضروری ہے۔
’’جو لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں، بچے، عورتیں۔ زبح کیا گیا ہے فوجی اہلکاروں کو، پولیس اہلکاروں کو شہید کیا گیا خود کش حملوں میں۔ اس کے بعد سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ ان سب کی قربانیوں پر سودا نہیں ہوگا؟ کیا یہ قوم کو پیغام نہیں دیا جارہا کہ ہم نے دہشت گردوں کے حوالے کردیا ہے ملک کو؟‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری شدت پسندی میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔
حکومت کی اتحادی مذہبی و سیاسی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے سیاست دانوں کو لب و لہجہ تبدیل کرنا ہوگا۔
’’ہماری پنچائتوں میں یہ الفاظ کہہ کر نہیں بلایا جاتا کہ اے بدمعاش بیٹھو میرے ساتھ کہ میں تیری بدمعاشی ختم کروں۔ آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور آپ کا لب و لہجہ کیا ہے؟ کیا آپ انھیں امن پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا اشتعال کی۔ یا نظریہ بن چکا ہے کہ بھارت کی بجائے ہم اندرونی دشمن کو دشمن نمبر ون قرار دے رہے ہیں۔‘‘
مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے قانون ساز سعیدالحسن مندوخیل کا کہنا تھا کہ بات چیت کا عمل ملک کے آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے شروع کرنا چاہیئے۔
’’امن کو ایک موقع ملا ہے اس سے مستفید ہوں۔ وہ (شدت پسند) اپنے بچے ہیں کسی بھی وجہ سے وہ ناراض ہیں یا کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی دوسرے کے اشارے پر یہ کام کررہے ہیں۔ اگر یہ (موقع) ضائع ہوگیا تو پھر تنگ آمد، بہ جنگ آمد والی بات ہوگی۔‘‘
حال ہی میں القاعدہ سے منسلک کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے ایک بار پھر متعدد کارروائیاں سامنے آئیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت کئی لوگ مارے گئے جس پر حکومت میں شامل عہدیداروں نے شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا۔ نواز شریف حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے بات چیت ان کی اولین ترجیح ہے۔
مگر قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد سید خورشید شاہ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بات چیت کی آڑ میں شدت پسند اپنی کارروائیوں میں تیزی نا لے آئیں۔
’’ہم آپ کی ان مجبوریوں کو سمجھتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعظم آپ کی کتنی مجبوریاں ہیں۔ کتنی رکاوٹیں ہیں جنھیں آپ پھلانگ نہیں سکتے۔ آپ بالکل مذاکرات کے لیے جائیں۔ مگر اس کا وقت ہونا چاہیئے۔ ایسا نا ہو کہ پھر یہ اتنا طول پکڑ لے اور لوگوں کو مایوس ہونا پڑے۔‘‘
گزشتہ سال ستمبر میں تمام سیاسی اور فوجی قیادت نے نواز شریف حکومت کو شدت پسندوں سے بات چیت شروع کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔ حکومت میں شامل عہدیداروں کی طرف سے متعدد بار شدت پسندوں سے رابطے کے اعلان کیے گئے مگر دوسری طرف سے ہمیشہ ان کی تردید کی گئی۔
نومبر میں ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ سے منسلک کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس سے شدت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات سبوتاژ ہوئے ہیں۔
مذاکرات کے لیے ٹیم کے اعلان سے دو روز قبل ہی وزیراعظم کی سربراہی میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں کے ایک اجلاس میں اکثریت نے شدت پسندوں کی کارروائیوں میں ایک بار پھر اضافے کے تناظر میں کارروائی کی حمایت کی تھی۔
کراچی کی ایک بااثر سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سینئیر رہنما فاروق ستار نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ نظریہ پاکستان، اس کی ثقافت اور لوگوں کے طرز زندگی کے تحفظ کے لیے خونریز دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا ضروری ہے۔
’’جو لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں، بچے، عورتیں۔ زبح کیا گیا ہے فوجی اہلکاروں کو، پولیس اہلکاروں کو شہید کیا گیا خود کش حملوں میں۔ اس کے بعد سوچنا چاہیئے کہ کیا یہ ان سب کی قربانیوں پر سودا نہیں ہوگا؟ کیا یہ قوم کو پیغام نہیں دیا جارہا کہ ہم نے دہشت گردوں کے حوالے کردیا ہے ملک کو؟‘‘
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جاری شدت پسندی میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد پاکستانی ہلاک ہو چکے ہیں۔
حکومت کی اتحادی مذہبی و سیاسی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے سیاست دانوں کو لب و لہجہ تبدیل کرنا ہوگا۔
’’ہماری پنچائتوں میں یہ الفاظ کہہ کر نہیں بلایا جاتا کہ اے بدمعاش بیٹھو میرے ساتھ کہ میں تیری بدمعاشی ختم کروں۔ آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور آپ کا لب و لہجہ کیا ہے؟ کیا آپ انھیں امن پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا اشتعال کی۔ یا نظریہ بن چکا ہے کہ بھارت کی بجائے ہم اندرونی دشمن کو دشمن نمبر ون قرار دے رہے ہیں۔‘‘
مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے قانون ساز سعیدالحسن مندوخیل کا کہنا تھا کہ بات چیت کا عمل ملک کے آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے شروع کرنا چاہیئے۔
’’امن کو ایک موقع ملا ہے اس سے مستفید ہوں۔ وہ (شدت پسند) اپنے بچے ہیں کسی بھی وجہ سے وہ ناراض ہیں یا کچھ ایسے بھی ہیں جو کسی دوسرے کے اشارے پر یہ کام کررہے ہیں۔ اگر یہ (موقع) ضائع ہوگیا تو پھر تنگ آمد، بہ جنگ آمد والی بات ہوگی۔‘‘
حال ہی میں القاعدہ سے منسلک کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے ایک بار پھر متعدد کارروائیاں سامنے آئیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت کئی لوگ مارے گئے جس پر حکومت میں شامل عہدیداروں نے شدید ردعمل کا اظہار بھی کیا۔ نواز شریف حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے بات چیت ان کی اولین ترجیح ہے۔