پاکستان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ بھارت کی تیزی سے بڑھتی ہوئی روایتی اور جوہری صلاحیت اور عسکری نظریات پر پاکستان کی تشویش کی عالمی سطح پر تفہیم بڑھی ہے۔
صدر اوباما نے گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں ہونے والی جوہری سلامتی کی کانفرنس میں اپنی اختتامی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو یقینی بنانا چاہیئے کہ اپنے عسکری نظریات کی تشکیل کے دوران وہ مسلسل غلط سمت میں کی طرف گامزن نہ رہیں۔
حالیہ سالوں میں بھارت نے اپنے روایتی ہتھیاروں کے ذخیرے میں تیزی سے اضافہ کیا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق سول جوہری معاہدہ استعمال کرتے ہوئے اپنے جوہری مواد کے ذخیرے میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جس سے وہ بڑے پیمانے پر جوہری ہتھیار تیار کر سکتا ہے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ بھارت سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے پاکستان تیزی سے اپنی جوہری صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے جس پر عالمی رہنماؤں کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، تاہم پاکستان ایسی خبروں کی تردید کرتا رہا ہے۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ ہم نے صدر اوباما کی اس بات کو توجہ سے سنا ہے جس انہوں نے کہا ہے پاکستان اور بھارت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کریں کہ ان کے عسکری نظریات غلط سمت میں نہیں جا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے اور ہم علاقے میں جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی دوڑ کے خلاف ہیں۔
نفیس ذکریا نے پاکستان کی طرف سے اسٹریٹجک ریسٹرینٹ ریجیم یعنی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کے معاہدے کی تجویز کا بھی ذکر کیا جس سے ان کے بقول جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی غیر ضروری دوڑ کو روکا جا سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نیوکلیئیر سپلائیرز گروپ سمیت جوہری مواد اور ٹیکنالوجی کی برآمد سے متعلق دیگر کثیر فریقی معاہدوں میں شرکت کی مکمل اہلیت رکھتا ہے اوراس اعتماد کا اظہار کیا ہے پاکستان اس سلسلے میں اصولوں پر مبنی، غیرجانبدار اور غیر امتیازی معیار پر پورا اترے گا۔
یاد رہے کہ 2005 میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول جوہری معاہدہ کرنے کے لیے اپنے ملک کے جوہری عدم پھیلاؤ کے قوانین میں تبدیلی کی تھی اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شامل ممالک نے بھی بھارت سے اس شعبے میں ممکنہ معاونت کی حمایت کی تھی جس کے بعد عالمی سطح پر بھارت کے ساتھ جوہری تعاون میں اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان بھی امریکہ سے اسی طرز کے جوہری معاہدے کا خواہاں ہے مگر اس کے بقول وہ اپنے جوہری پروگرام پر کوئی قدغن قبول نہیں کرے گا۔